خواتین کے حقوق، مایوسی، امید اور ریفارمز 

Naseer Ahmed, the writer

خواتین کے حقوق، مایوسی، امید اور ریفارمز

از، نصیر احمد 

جبر و قدر پر بحث کرتے ہوئے فلسفی ولیم جیمز ایک شخص کا قصہ سناتے ہیں۔ یہ شخص اپنی بیگم سے بے زار تھے۔ کسی بہانے وہ انھیں کسی ویرانے میں لے گئے۔ بیگم کو چار گولیاں ماریں۔ وہ تڑپتی ہوئی زمین پر گر گئیں اور کہنے لگیں:

پیارے، تم نے یہ سب جان بوجھ کر تو نہیں کیا۔

ان شخص نے جواب دیا، پیاری، میں نے واقعی یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا۔ یہ کہہ کر انھوں نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور اپنی بیگم کا سَر کُچل دیا۔

ولیم جیمز کے کہنے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اس واقعے سے مجبوری کے کتنے ہی  سلسلے قائم نہ کر لیے جائیں، ایک بات ذہن سے ہٹتی نہیں کہ اس واقعے سے بہتر کچھ ہو سکتا ہے۔

گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کے مطابق صنفی امتیاز کی عالمی رینکنگ میں پاکستان سے صرف ایک ہی ملک پیچھے ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم WEF کے مطابق خواتین کی معاشی شرکت اور خواتین کے لیے معاشی مواقع کے حوالے سے پاکستان ایک سو چھیالیسویں نمبر پر ہے۔ خواتین کی صحت و بقاء میں کار کردگی میں پاکستان کا ایک سو پینتالیسواں نمبر ہے۔ جن نوکریوں میں سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینئرنگ کی استعداد در کار ہے ان نوکریوں میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں خواتین کی تعداد صرف بائیس فی صد ہے۔

اعلیٰ حکومتی عہدوں کی جہاں تک بات ہے تو ابھی کوئی خاتون صدرِ پاکستان نہیں ہوئیں۔ وزیرِ اعظم بھی ایک ہی ہیں۔ سپریم کورٹ کی چیف جسٹس بھی ابھی تک کوئی خاتون مقرر نہیں ہو سکیں۔ ایک خاتون چیف آف آرمی سٹاف کے بارے میں شاید سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ عمومی طور پر یہ سوچا جاتا ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ دین دار ہیں، لیکن مشہور عُلَماء میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔

ڈی ڈبلیو DW کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطر ناک ملکوں میں پاکستان چھٹے نمبر پر آتا ہے۔

میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق دو ہزار گیارہ سے دو ہزار سترہ تک اکیاون ہزار سے زیادہ خواتین پر تشدد کے واقعات کے کیسز درج ہوئے۔ پاکستان کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ خواتین تبھی کیس درج کرواتی ہیں جب سعدی شیرازی کی اس شعر والی کیفیت ہو جاتی ہے۔

نہ فراغت نشستن، نہ شکیب رخت بستن

نہ مقام ایستادن، نہ گریز گاہ دارم

کہ بیٹھنے کی فرصت ہے اور نہ کہیں جانے کی ہمت، نہ کھڑے ہونے کی کوئی جگہ اور نہ کہیں ہٹنے چھپنے کا مقام۔

ہمارے اپنے اندازے کے مطابق صورتِ حال اس سے بھی بد تر ہے۔ صبر کرنے اور ظلم سہنے کی ایک تعلیم ہے اور پھر تلافی، انصاف، داد رسی، حاجت روائی کے چینل بھی بند ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے انصافی اداروں سے شکایت خواتین شاذ و نادر ہی کرتی ہیں؛ اور پھر انصاف ملتا بھی نہیں۔

وہائٹ رِبن White Ribbon کے مطابق چار ہزار سینتیس کیس خواتین پر جنسی تشدد کے دو ہزار چار سے دو ہزار سولہ تک درج ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران پندرہ ہزار کیس غیرت کے نام پر تشدد کے درج ہوئے۔ مجرموں کو سزا ملنے کا تناسب بھی بہت کم ہے۔ صرف ڈھائی فی صد۔

نظام سے مایوسی اور نا امیدی کی وجہ سے شکوہ و شکایت کم ہی کیے جاتے ہیں۔ جہالت اتنی ہے کہ بہت ساری خواتین کو اس بات کی خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ادارہ موجود ہے۔ ادارے کی خبر ہو جائے تو وہاں جا کر شکایت درج کرانا بھی ایک عذاب بن جاتا ہے۔ درج کرا دی تو انصاف ملنے کی امید اندراج کے ساتھ ہی مر جاتی ہے۔ غربت ہے تو ساتھ دینے والے بھی معجزے، کرامتیں اور چمتکار بن جاتے ہیں۔ ‘کتنے لوگ ہیں شہر میں مگر انسان ایک تم ہی ہو’ جیسی صورتِ حال ہو جاتی ہے۔

کل کوئی معاشرے کی لاڈلی اپنے حقوق مانگنے والیوں پر چنگھاڑ رہی تھیں کہ ہم تو مالز میں شاپنگ بھی کرتے ہیں، سہولتیں بھی ملتیں ہیں، سب کشل منگل، پھر وطن کو بدنام کیوں کیا جائے۔ شاپنگ اور سہولتیں بھی سچ ہے، لیکن یہ اعداد و شمار بھی جھوٹ نہیں ہیں۔ اک ذرا سرسری جہان سے گزرو تو بہت کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ تفصیلوں میں جاؤ تو ابلہان بھی لڑکھڑانے ڈگمگانے لگتے ہیں کہ یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں۔

پھر اعداد و شمار محض اعداد و شمار تو نہیں ہوتے۔ انسانوں کی زندگیاں ہوتی ہیں۔ اور جیسا واقعہ فلسفی ولیم جیمز نے بتایا ہے ایسے واقعات ہزاروں کی تعداد میں  رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اور کوئی سا واقعہ کبھی دیکھ لیں، سن لیں اور پڑھ لیں تو ذہن یہ سوچتا ہے کہ اس سے ذرا بہتر ممکن ہے۔ یا پھر یہ گانے لگیں:

لکھی لوح قلم قادر نے مائے، موڑ جے سکنی ایں موڑ

لوح پر کیا لکھا ہے یہ شاہ حسین کیا کسی سائنس دان کو بھی نہیں پتا۔ اور مائیں تو کوشش کرتی ہیں کہ ان کے بچوں کی زندگی کچھ اچھی ہو جائے؛ کچھ کام یاب بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر زیادہ مائیں حکومت سے معاشرے سے اپنے بنیادی حقوق مانگیں گی تو شاید شَنوائی کا مِعیار بھی کچھ اچھا ہو جائے۔

ایک مسئلہ انسانوں کے بیچ درجہ بندیوں کا ہے؛ قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ آئینی طور پر بھی برابری آدھی ادھوری ہے۔ یہاں تو پتھر پر لکھے نقوش دیکھ کر لوگ بیان دینے لگتے ہیں کہاں ہیں کدھر ہیں، ریت پر نقشِ قدم کسے یاد رہتے ہیں۔

لیکن ان قدیم درجہ بندیوں کو سائنسی اور منطقی علوم نہیں مانتے۔ انسانی تجربات نہیں مانتے۔ عمومی ذہانت نہیں مانتی۔ مذاہب کی عُلُوم سے قریب تفاسیر نہیں مانتیں۔ ایک ثقافت رہ جاتی ہے تو علم سے دور ثقافت کے نتائج نا روائی، زیادتی اور ظلم و ستم کی صورت میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ اور یہ سب دیکھ کر ایک بہتر صورتِ حال کو تصور میں لانا اتنا مشکل ہے۔ ایک فرد، ایک شہری اور ایک انسان کا فطری عمل ہے۔

لیکن فرد، شہری اور انسان کے حوالے سے تو گفتگو ہی ممکن نہیں رہی۔ بس گروہوں، لشکروں، جتھوں کے ہی تذکرے ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ذرا حواسِ خَمسہ کا استعمال کر لیں تو فرد ڈھونڈنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن پٹھانے خان کی طرح فرد نہ ڈھونڈیں کہ میں ایک زمانے سے تجھے ڈھونڈ رہا ہوں۔ جیسے پکڑ کر کھا جائیں گے۔

اگر فرد ملتا ہے تو فرائض و حقوق کے سلسلے کھوجنا اتنا مشکل نہیں رہے گا۔ شہری اور شہری ذمے داری تک بھی بات پہنچ جائے گی۔ کچھ درد و غم کے نتائج کی خبر بھی مل جائے گی اور پھر فلسفی ولیم جیمز کی طرح ایک بہتر صورتِ حال کے لیے کوشش کرنا اتنا دشوار نہیں لگے گا؛ بَل کہ یہ ایک ذمے داری بن جائے گی۔

اور ایک بہتر صورتِ حال ایک جگہ جمع ہو کر اچھلنے کودنے سے نہیں اجاگر ہوتی۔ اس کے ساری سلسلے سائنسی علوم، خِرد اور ضمیر سے جڑے ہیں۔ اچھل کود سے ہمارا مطلب احتجاج پر طنز کرنا ہر گز نہیں ہے۔ احتجاج ایک اہم حق ہے جس کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ ہم بس ان مَجمعوں کی بات کر رہے ہیں جن میں سائنسی علوم، خرد اور ضمیر کو بالکل بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔

اب اصلاحات بَہ تدریج ہوتی رہیں اور بات وہاں تک پہنچ جائے کہ معاشرہ انسانی برابری تسلیم کر لے؛ یا انسانی برابری کو تسلیم کر کے اصلاحات کی جائیں۔ یہ ایک سوال ہے؟ ہمارے ہاں نہ تو بَہ تدریج اصلاحات ہو رہی ہیں کہ بات انسانی برابری تک پہنچے اور نہ انسانی برابری تسلیم کرنے کے رجحان کو فروغ ہوا ہے کہ اصلاحات کچھ سہل ہو جائیں۔ کوئی ایک ماڈل تو اپنانا پڑے گا۔

لیکن خواتین باہر نکلی ہیں۔ اپنے فرد، شہری اور انسان ہونے پر اصرار کر رہی ہیں۔ ان کی اس بات کو عُلُوم کی سائنسی، فلسفیانہ، منطقی، قانونی اور اخلاقی شاخوں کی حمایت حاصل ہے۔ اور معاشرے میں علم کی اہمیت کا کچھ احساس بھی توانا ہوا ہے۔ اگر ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو ولیم جیمز جس بہتر صورتِ حال کی بات کر رہے ہیں، بات ادھر چل پڑے گی۔ چار پانچ ہزار سال سے علم کی مخالفت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، اسے ترک کر دیتے ہیں۔ اور اصلاحات کا نفاذ کچھ آسان ہو جائے گا۔

نَخوت میں پڑے رہے تو بات شوپن ہاور کی مایوسی کی طرف چل نکلتی ہے۔ وہاں سے نیٹشا کی طاقت پرستی کی طرف۔ وہاں سے کاملیت پرستی کی طرف۔ اب یہ سب کچھ سہہ چکے ہیں۔ اور کتنا سہتے رہیں گے؟

اس لیے جلمی بلم اب مان بھی جاؤ، نہ گولیاں مارو اور نہ پتھر سے سر کُچلو، اس سے بہتر ممکن ہے۔