جنید سیریز پر ڈاکٹر عرفان شہزاد کی تنقید اور کچھ ضروری وضاحتیں

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

جنید سیریز پر ڈاکٹر عرفان شہزاد کی تنقید اور کچھ ضروری وضاحتیں

از، ہمایوں مجاہد تارڑ

جنید سیریز افسانوی ادب یعنی فِکشن ہے۔ فکشن تصوّراتی دنیا کی پیداوار ہے جس میں مصنّف خود بھی اور قاری بھی اپنے خواب وخیال کو، اپنی خواہشات کو مجسّم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کم زوری، کم، یا خلا حقیقی زندگی میں پایا جاتا ہے، اُسے کسی طور پُر کر لیا جاتا ہے۔ ساری کشش، یا مقناطیسیت اِسی کتھارسس میں رکھی ہوتی ہے جو ایک رِیڈر کو کھینچتے ہوئے آخر تک لے جاتی ہے۔ اِسے تفریح یا ایک پِیس آف انٹرٹینمنٹ کے طور بھی لیا جاتا ہے، جب کہ مصنّف اگر چاہے تو اِس کے بیچ کچھ اچھی باتیں، معلومات، اور مَثبت پیغامات کا بھی ابلاغ کر سکتا ہے۔ پرندوں والی فلم Rio دیکھ لیں، یا اِنڈین فلم PK دیکھ لیں، اِینی میشن ہو یا پی کے فلم کے ہیرو کا ما فَوق الفطرت پن، آپ ذرا نوٹ فرمائیں کیسی عمدگی سے ڈھیروں مَثبت پیغامات کمیونیکیٹ کیے گئے ہیں۔


موجودہ مضمون کا محرک مضمون:

ناول کا تسبیح والا ہیرو؛ جنید سیریز از ہمایوں تارڑ  تبصرۂِ کتاب از، ڈاکٹرعرفان شہزاد


ہم اپنے لڑکپن میں عمران سیریز پڑھا کرتے۔ اس میں عمران ایکسٹو کا رُوپ دھار لیا کرتا ہے، اور دس بیس فُٹ فاصلے سے فائر کی گئی پستول کی گولیاں اُسے چھو نہیں سکتیں؛ یا دیوتا کہانی کا فرہاد تیمور جسے ٹیلی پیتھی سے متّصف کیا گیا، یا بازی گر والا بابر زماں خان جو چاقو زنی، جسمانی پُھرتی سے لب ریز داؤ پیچ، صبر و عزیمت اور دانائی کی علامت ہے۔

افسانوی ادب کے باقی ہیروز بھی مختلف انداز میں اِمپاور کیے جاتے ہیں جس کی تفصیلی وضاحت، تعارف والے صفحات میں دے دی گئی ہے۔ اِس لیے، جنید کی ESP صلاحیت قاری کے لیے تفریح/اَینٹرٹینمنٹ کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسی شے دل چسپی بر قرار رکھنے میں خوب معاون ہوتی ہے۔

بات اگر سمجھ میں آنا ہو تو ایک عام سے بندے کو بھی آ جاتی ہے، جیسا کہ آپ (یعنی ڈاکٹر عرفان شہزاد)کی فیس بک وال پر محمد فیاض صاحب نے تبصرہ کیا ہے:

عرفان بھائی، کہانی اور حقیقت میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ پھر، ہمایوں صاحب نے اَینٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ کچھ سِکھانے کی بھی کوشش کی ہے، اور وہ اپنی کوشش میں کس قدر کام یاب ہوئے ہیں، اِس کا اندازہ میں نے دو باتوں سے لگایا ہے: اوّل، ایک ہی نشست میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ دوئم، دل نہیں بھرا اور اب اگلے حصّہ کا انتظار ہے۔

خود آپ کا بھی یہی کہنا ہے کہ آپ نے ساری کتاب ایک ہی نشست میں پھونک ڈالی۔ اور پھر بیسیوں نہیں، سینکڑوں لوگ ہیں جو وَٹس ایپ اور فیس بُک پر اِسی بات کا اظہار کرتے پائے گئے۔

جنید کی ایکسٹرا سینسری پرسیپشن، ESP، والی صلاحیت اِس افسانوی ادب کا مزہ سَوا کرنے کو ایک ٹول کے طور استعمال کی ہے۔ اگر چِہ حقیقی زندگی میں ایسے لوگوں کا وجود ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے ــــ جیسا کہ کتاب کے تعارف میں بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ ہر زمانے میں بلا تفریقِ رنگ و نسل اور مذہب کے ہمیشہ پائے گئے ہیں۔

جنید کی ESP صلاحیت کو کَشف و کرامات سے تعبیر نہ کریں، بل کہ یہ ایبنارمل سا فینامینن بَہ ذاتِ خود ایک حقیقت ہے، نہ کہ محض ایک تصوّراتی شے۔

اسی طرح مائی ہاجرہ والا کردار بھی حقیقی زندگی سے اُٹھایا گیا سو فی صدی ایک حقیقی کردار ہے، جس کے حق میں سینکڑوں گواہیاں موجود ہیں۔ شہر بھی وہی ہے، یعنی حسن ابدال۔ بس نام بدل دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ مائی صاحبہ اب حیات ہیں یا نہیں، لیکن سن 2000 کے ابتدائی برسوں میں اُن کے ساتھ میری فیملی کی انٹرایکشن رہی ہے۔ ہم پَرسنلی یا بَہ راہِ راست انہیں جاننے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔

نیز، استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق صاحب میں بھی یہ صلاحیت اسی درجہ موجود ہے، بار بار ملاقاتوں میں دل چسپ مشاہدات ہوئے، جن سے انکار ممکن ہی نہیں۔ دنیا خوب محظوظ ہوا کرتی ہے اُن کے ہاں اِس نوع کی پرسیپشن، یا سکیننگ کے مظاہرے دیکھ کر۔ بعض لوگ اپنے بچوں کو مِلوانے لے جایا کرتے ہیں کہ بتائیں ان کے حسبِ مزاج و حسبِ صلاحیت ان کے لیے کون سا شعبہ موزوں رہے گا۔

تو کہنا یہ ہے کہ جنید کے ہاں اس سائیکک پاور کا تڑکا ڈال کر اُس سے ایک ٹُول کے طور تھوڑا کام لے لینا تفریح اور کتھارسس کا ذریعہ ہے اور بس! اِسے آپ اسی حد تک لیں۔ عملی اعتبار سے مضبوط، ترقی یافتہ اقوام کے ہاں ایسی اینٹرٹینمنٹ (کتابی شکل ہو یا visual فارم) بہت آگے تک جا چکی ہے جس کی بے شمار مثالیں چند منٹوں میں گنوائی جا سکتی ہیں، اور آپ خود اس سب کچھ کے شاہد ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں اِس سے کیا نقصان ہوا؟ سائیبورگ، اَیلیئنز، فِلم Divergent ایسے اور دیگر سائنس فِکشن موضوعات پر سینکڑوں کتب اور فلمز وجود میں آ چکیں جو تفریح کے ساتھ ساتھ عمدہ معلومات اور اخلاقی نوعیت کے پیغامات ابلاغ کرنے کا بھی ذریعہ بنی ہیں؛ بل کہ اُن سے گائیڈ ہو کر اختراع و ایجاد کے شعبہ کو تقویت ملی ہے۔

ہیری پوٹر میں وہ لڑکا جس چُغہ کو اوڑھ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے، اب invisible cloak کی صورت ایک حقیقی وجود رکھتا ہے۔ ٹام کروز نے اِس پِیس آف ٹیکنالوجی کو اپنی ایک فلم میں استعمال کر کے دکھایا ہے۔ یُوٹیوب پر جا کر دیکھ لیں، جسم کے ساتھ ایک بیگ جتنے حجم کی ڈیوائس باندھ کر لوگ ریاست فلوریڈا میں ایک جھیل کے مقام پر اڑتے پھر رہے ہیں۔

محترم ریاض علی خٹک نے جنید سیریز کے لیے اپنے ایک رسپانس میں لکھا ہے:

ایک وقت تھا کہ الف لیلیٰ میں اڑتا قالین اور جامِ جمشید جادو تھا۔ اس جادو نے خواب دیے اور پھر ایک وقت آیا کہ گھر گھر ٹی وی ہے، اور آسمان جہازوں سے بھر گیا۔ ابھی کل کی بات ہے سٹار ٹریک بھی ایک جادو کی سیریل تھی۔ آج وہ بھی فسانہ نہیں رہا۔ تخیل اور کہانی ایک پڑاؤ پر نہیں، دور جاتی منزل پر جانچی جاتی ہے۔ اَپروچ یہ ہونی چاہیے کہ آپ اسے بچہ ہو کر پڑھیں۔ دوسری اَپروچ پیرنٹنگ کی ہے۔ وہ nature اور nurture کے درمیان سے نکلتی ہے۔ بچے کا تخیل الگ ہوتا ہے، بڑے کا الگ۔ بچہ سپر ہیرو سے اِنسپِریشن لیتا ہے۔ بڑا اُس کے پیچھے حقیقت کی کسوٹی نکال لیتا ہے۔ لیکن یہ کسوٹی اور اس کا معیار کل کے لیے آج کے بچے کا تخیل بنائے گا۔ اس تخیل کو بہت پھیلانا ہے۔

یہ وضاحت اِس لیے ضروری تھی کہ آئندہ کتب اور کہانیوں میں جنید کیESP صلاحیت کو تھوڑا سائی فائی ٹچ دے ڈالنے کا ارادہ بھی ہے۔

ناول میں جناب عاصم اللہ بخش کا کردار ایک افسانوی کردار ہے جس کے ذریعے سب اچھے پیغامات کو ابلاغ کرایا گیا ہے۔ اُن پر کوئی “تہمت” نہیں دَھری گئی۔ یہ الگ بات کہ حقیقی زندگی میں بھی ہمارے پاس عاصم اللہ بخش صاحب فیس بُک پر موجود ہیں جن سے محبت اور قلبی تعلق نے ہی مصنّف کو اِنسپائر کیا یہ نام منتخب کر لینے کو۔ اگر چِہ بُک وَن چھپ چکی تو بعض احباب کے مشورہ و نصیحت پر اس نام کو بدل دیا۔ بُک ٹو میں یہ نام ذرا سا بدل ڈالا ہے۔

رنگوں کے استعمال میں آپ نے خاص معنویت تلاش کر لی۔ ایسا کچھ نہیں، صاحب! یہ فقط ڈِسکرِپشن کا تقاضا ہے اور بس؛ مثلاً نیلا گیٹ، سفید رنگ والی وین، بھورے رنگ کی جیکٹ وغیرہ اشیا کو اشیا سے جدا کر کے دِکھانے کا ذریعہ ہیں۔ البتہ سفید مُرغ والی بات میں رنگ کی معنویت وہی ہے جو آپ نے اخذ کی ہے۔

رہی بات اس سے متعلق حدیثِ مبارکہ کے مستند، یا ضعیف ہونے کی تو میں کوئی عالم فاضل نہیں بھیّا۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں، اور یہاں سوشل میڈیا پر اس حدیث سے متعلق اِکا دُکا ایسی پوسٹس دیکھ رکھی تھیں۔ گھر میں جانور پالنے کی اہمیت والے پوائنٹ پر سٹریس کرتے ہوئے سفید مُرغ بھی پکڑ کر ڈال لیا۔

خیر، آپ پریشان نہ ہوں، کسی کا ایمان خطرے میں پڑنے کا نہیں۔ ایمان، میری رائے میں، صرف اُس شخص کا خطرے میں ہوتا ہے جس کے دین کا کُل دار و مدار دوسروں کو روک دینے، دوسروں کے خیالات اور عقائد کی تطہیر پر ہو۔ دوسروں کو غلط کہنے، صرف اپنی تعبیرِ دین پر اصرار کرنے، اور اصلاحِ معاشرہ کے نام پر ہَمہ وقت دوسروں کی دھجّیاں اڑائے رکھنے والے رجحان کا اسیر ہو کر رہنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ خود اپنی تعبیرِ دین پر بھی کم ہی عمل کر پاتے ہیں۔

دلیل، الفاظ، اعداد و شمار، اور تنقید کا پلندہ لیے وہ انسان کا ایک روبوٹک سا وَرژن بن جاتے ہیں۔ لطف و کرم سے خالی۔ جب کوئی کہہ دے کہ رسالتِ مآبؐ پر درود پڑھنا عبادت ہے، تو وہ درست اور اچھے عمل پر اصرار کی تلوار لیے آن موجود ہوتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کا اندازِ تنقید خود ایک برا عمل بن چکا ہے۔

نماز ہی اہم ہے، تاہم نماز سے جُڑے رہنے، دائم حالتِ صلوٰۃ میں رہنے، کار و بارِ حیات کے معاملات میں نرم خُو اور مخلص رہنے، خدا سے جڑے رہنے کو اُس کا کلام پڑھنے کی اہمیت پر زور ہے۔ اب یہ ذاتی نوعیت کا تجربہ ہے کہ تسبیح سے جڑے رہنے کی صورت نماز پڑھنا بوجھ نہیں لگتا۔ ایسی تسبیح پڑھنا (نہ کہ کسی خواہش پر فوکس کیے کوئی وظیفہ پڑھنا) سیرتِ رسالتِ مآبؐ سے ایک ثابت شدہ شے ہے۔

نیز، وظیفہ پڑھنے اور تسبیح پڑھنے میں کیا فرق ہے، اس کی تفصیلی وضاحت کتاب کے تعارف میں پیش کر دی گئی ہے۔ آپ کو یہ والی تعبیرِ دین پسند نہیں، آپ اس پر عمل نہ کریں۔ لیکن دوسروں کو اُن کے مَن کی دنیا کا لطف لینے کی اجازت بھی دے دیں۔

معروف دین سے انحراف کیا گیا ہے؟ اِس بات سے اِس لیے اتفاق نہیں کہ یہی بات خود آپ لوگوں پر صادق آتی ہے۔ دِین ایک بہت بڑا فِینامِینَن ہے۔ خدا اور رسولؐ سے جڑے رہنے کی ہزار صورتیں ہیں۔ بنیادی شے اخلاص و نیت ہے۔ میری دُعا ہے، کسی دوسرے کے من کی دنیا کو بھی قبول کرنے والی وسعتِ قلبی آپ کو میسّر رہے تا کہ صرف اپنی سی تعبیر پر اصرار، باقی سب کچھ کا انکار والی انا کے حصار کو آپ توڑ کر باہر آ سکیں۔

میں آپ کو ایک اہم بات بتاؤں ـــ خلوص و محبت والا جلوہ آپ کو ہر مکتبۂِ فکر کے اِکّا دُکّا افراد میں مل جاتا ہے؛ مثلاً غامدی مکتبۂِ فکر میں ایسا ہی جلوہ راقم نے ابو یحیٰ کی تصنیف، جب زندگی شروع ہو گی میں دیکھا۔ حتیٰ کہ ملاقات میں خود اُن کی شخصیت میں بھی ایسا ہی نظر آیا۔ کیسے؟ ایسا ہر شخص نرم خُو ہو جاتا ہے۔ لڑک پَن کے زمانے میں، دنیائے تبلیغی جماعت میں راقم نے اپنے انگریزی کے استاد یوسف نسیم مرحوم میں بھی ایسا ہی جلوہ دیکھا تھا۔ بَہ تدریج وہ ایک نُور علیٰ نور قسم کی شخصیت بن گئے تھے۔ آپ یقین جانیں، اُن کی شخصیت میں مقناطیسیت تھی۔ وہ محبت اور نرم خوئی کا پیکر تھے۔

جب کہ جماعت اسلامی میں تو متعدّد ایسے لوگ دیکھے۔ میرے اپنے شہر کے امیر جماعتِ اسلامی مرزا حبیب اللہ مرحوم ایک پُر نور شخصیت تھے: دانا، کم گو، سراپا محبت و ہم دردی، اچھے سوشل ورکر۔ ایسے سب حضرات میں ایک نمایاں خوبی یہ دیکھی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے محض سخت تنقید کی چھری لیے نہیں پھرا کرتے۔ وہ دوسروں کو سپیس دینے کا ہنر جانتے ہیں، اور تعلّقِ خاطر بنانے کے حیلے تلاش کیا کرتے ہیں۔ یہی دانائی ہے۔ محبّت سب سے بڑی دانائی ہے۔

ویسے مجھے گِلہ ہے کہ الموارد مکتبۂِ فکر کے لوگ (استثنائی مثالیں موجود ہیں) بہت سی ایسی معروف و غیر متنازِع باتوں پر اُمّت سے کٹ کر الگ ہو جاتے ہیں جس پر حیرت ہوتی ہے۔ جو استدلال پیش کیا جاتا ہے، اُن کی نکتہ سنجی میں بادی النّظر والی عقلی اپیل ضرور ہوتی ہے، لیکن دل نہیں ہوتا۔ محبّت والا لطف و کرم اُچک لیا جاتا، اور بس خشکی رہ جاتی ہے۔ ریشنل اِزم والی اَپروچ میں یہی خامی ہے۔ یہ نرا لفظوں کا ڈھیر ہے۔ وجدان اور عرفان سے تہی! اب، اِس مکتبۂِ فکر اندر زیادہ تکفیری قسم کے لوگ سلسلۂِ تکفیریہ چلا کر حد کیے بیٹھے ہیں۔

ڈاکٹر عرفان صاحب اس سلسلۂِ شریف کے سُرخیل نظر آتے ہیں۔ اِنہیں کوئی شے پسند نہیں۔ نہ یہ مُلک، نہ اس کا قیام، نہ اِس کے بانی، نہ اِس کے لوگ اور اُن کے “گمراہ کُن” عقائد۔ اگر کچھ درست ہے تو بس یہ خود، اِن کے عقائد اور اَکھنڈ بھارت شریف۔(یہاں مصنف مسکرانے کا emoji ڈالتے ہیں۔ مدیر)

آپ نے لکھا ہے کہ عام آدمی کیوں ہیرو نہیں ہو سکتا، اور یہ کہ ایک ہیرو کو ہمیشہ خاص اور اضافی صلاحیتوں سے متصف دکھایا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ اسی سے مِلتے جُلتے خیالات کا اظہار میرے محبوب جناب ابو یحییٰ نے ارطغرل ڈرامہ کے خلاف لکھے اپنے مضمون میں کر رکھا ہے۔ اِس نوع کے ہیرواِزم کو گلوریفائی کرنے کو مسترد کیا ہے۔ اگر اِنکار والی انا حائل نہ ہو تو ایسے ہیرو ازم کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں۔ آئیں اُن پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

دیکھیں، ہیرو کون ہوتا ہے، اور کیسے بنتاہے؟ ایک ہیرو ہمیشہ ایک چیلنجنگ صورتِ حال کو دانائی اور بہادری سے ڈیل کر جانے والا، معمولی سے غیر معمولی پر شِفٹ لے جانے والا، درست فیصلہ، زیادہ محنت، زیادہ ایثار برَت جانے والا انسان ہوتا ہے۔ پیچیدگی/مشکل/چیلنج چھوٹے درجے کا ہو یا بڑے درجے کا، بہ ہر حال، کوئی ایک شخص ہی کسی خاص موقع پر کچھ ایسا پرفارم کیا کرتا ہے۔

زندگی کی کہانی آگے بڑھنے سے عاجز ہے جب تک قدم قدم پر heroic deeds نہ ہوں جنہیں ہر مخصوص وقت میں کوئی ایک شخص ہی انجام دیا کرتا ہے۔ وہ کسی سیچوئیشن میں لگے لاک کو توڑ ڈالتا ہے۔ کیسے؟

ایک فٹ بال میچ میں کوئی ایک یا دو کھلاڑی ہی گولز سکور کیا کرتے اور میچ جِتوا دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح، کرکٹ میں کوئی ایک یا دو کھلاڑی چل پاتے ہیں، بیٹنگ میں بھی اور باؤلنگ میں بھی؛ یعنی وکٹس گرانے، اور رنز بنانے والی پیچیدگی حل کر دیا کرتے ہیں۔ افکار کی دنیا میں کوئی ایک شخص اٹھ کر شکوہ، جوابِ شکوہ ایسی نظم لکھا کرتا ہے۔ کوئی ایک محمّد ؐ آ کر پورا سماج ہلا ڈالتا ہے۔ کوئی غامدی ایسا دماغ، ابو الاعلٰی مودودی، یا سر سید احمد خان کسی خاص معاملہ میں فکری پیچیدگی حل کر دیا کرتا ہے۔

پھر اُس کی فکر کا دھارا لے کر چھوٹے چھوٹے ہیروز اپنی اپنی سیچوئیشنز میں اُس کے اچھے شارِح بن جاتے ہیں۔ منگول حملوں والے اُس مشکل دور میں ایک ارطغرل اٹھ کر صورتِ حال کو چیلنج کرتا اور قوت کھڑی کرتا ہے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ ایسے ایک شخص کو مخالف قوت کے رُو بَہ رُو اپنی طرف سے سِمبل آف پاور کے طور پیش کیا جاتا، اور گلوریفائی کیا جاتا ہے تا کہ اُس کی مثال کو بار بار ابھارنے سے اِنسپِریشن بر قرار رہے، یا مر گئی ہے تو اَز سرِ نو جی اُٹھے۔

آپ اس ٹریک پر سوچتے چلے جائیں، ہر چھوٹی بڑی سیچوئیشن میں آپ کو ہیروز نظر آئیں گے۔ پیچیدگی کو توڑ ڈالنے والے لوگ! امریکی ریاستوں کو جوڑ دینے والا اَبراھام لِنکن ایسا ہی ہیرو ہے۔

کوئی ایک شخص، صرف ایک شخص پہیّہ ایجاد کر ڈالتا ہے، واشنگ مشین یا پرنٹنگ مشین یا ٹیلی فون یا وائرلیس فون پر کام کر جاتا ہے، اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پھر چھوٹے چھوٹے سینکڑوں ہیروز اُن اشیا کے رنگا رنگ ورژنز بنا ڈالتے ہیں۔ ہیرو ایک سِمبل آف اِنسپِریشن اور پاور ہے۔ اور بے حد ضروری ہے۔

زندگی کے کسی منظر میں وہ سچائی جسے دل سے تو سب مانتے ہیں مگر برتنے میں ہچکچایا کرتے ہیں، وہاں کوئی ایک فرد ہیرو بنتا ہےـــ اُس سچائی کو اپنے عمل یا زبان سے سپارک کر ڈالنے سے۔ سخت گرمی میں کے موسم میں بھری وین اندر ایک بوڑھے، غریب مسافر کے لیے کوئی بندہ اپنی سِیٹ کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ اب ایک شخص کو جوش آتا ہے۔ وہ یہ کہہ کر اُس بوڑھے شخص کا کرایہ بھی پَلّے سے ادا کر کے اتر جاتا ہے کہ “لعنت ہے ہماری جوانیوں پر جو ایک غریب بوڑھے کی مدد بھی نہ کر سکیں،”  ہیرو ہے!

ویسے یہ ناول اگر اتنا دل چسپ تھا کہ ختم کیے بنا چھوڑا نہیں گیا، اور ساتھ ہی ساتھ آپ نے اِس میں غلط سلط باتیں دریافت کر لیں تو آپ کو چاہیے کہ اِس کی سو دو سو کاپیز منگوا کر اپنے ہم خیال ساتھیوں میں بانٹ دیں۔ وہ بھی اس پر تنقید لکھیں۔ اُن میں سے ہر ایک اپنی رینج میں درجن بھر لوگوں کے لیے یہ کتاب منگوائے، اور پاس بیٹھ کر انہیں بتائے اس میں یہ یہ باتیں غلط ہیں ـــ تا کہ یہ گمراہی زیادہ پھیل نہ جائے۔(یہاں مصنف مسکراہٹ کا emoji ڈالتے ہیں۔)

ایسا نہیں کہ جنید کو اوّلین کتاب میں نماز پڑھتے ہوئے نہیں دِکھایا گیا تو اس میں ارادہ و نیت کا عمل دخل تھا، بل کہ کہانی، واقعات، اور خیالات کے تسلسل کی گرفت میں رہ کر سب کچھ دِکھانا کسی بھی لکھنے والے کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ویسے جنید کو حج، عمرہ، اور زکوٰۃ دیتے ہوئے بھی نہیں دکھایا گیا۔ جنید کو کھانا کھاتے ہوئے بھی نہیں دکھایا گیا جو کہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔

حُسنِ اتفاق کہیے کہ دوسری کتاب میں نماز اَز خود نمایاں ہے۔ جنید والے منظر کا آغاز ہی نماز کی ادائیگی سے ہوا ہے۔ باقی، تسبیح والے نظامِ فکر پر زور ہے۔ اسی لیے اس کا خصوصی ذکر ہے، بل کہ اِسے جنید کی پاورز میں سے ایک پاور شمار کیا گیا ہے۔ نیز، نماز پڑھنا تو ایک عمومی منظر ہے۔ سب پڑھتے ہی ہیں۔ منظر وہی دِکھایا جاتا ہے جو ذرا خصوصی ہو۔ جب کہ تسبیح پڑھنا جنید کی شخصیت کا ایک characteristic ہے۔

آپ مجھے بتائیں، کیا تسبیح، ذکر و اذکار والی بات قرآن میں نہیں لکھی؟ بَل کہ بیسیوں مقامات پر لکھی ہے۔ یہاں تک بات ہوئی کہ ارض و سما کی ہر شے خدا کی تسبیح کرنے میں لگی ہے۔ اور کیا یہ بات پیغمبرؐ، صحابۂِ کَرام، اور مجاہدین کے طرزِ عمل سے ایک ثابت شدہ حقیقت نہیں؟ کیا ایک فیصد بھی انکار ممکن ہے؟

ہاں، ایک بات سے اتفاق ہے۔ ہمارا نظامِ فکر اور ہمارے والی تعبیرِ دین کَشف و کرامات پر کھڑے ہیں۔ اِس میں تو کوئی شک نہیں!ـــــ کہ ہم ہر ذرّہِ حیات کو بَہ طور معجزہ ہی دیکھا کرتے ہیں۔ اِس تحریر اندر میرا ہر ما بعد لفظ میرا کَشف ہے۔ یہ کَشف نہ ہو تو آگے بڑھنا محال، بل کہ نا ممکن! پلکیں جھپکنا، گردن موڑ کر دیکھنا، رگوں میں دوڑتا لہو … سب معجزے ہیں۔

اللہ یقبِضُ ویَبسطُ والا اَومنی پوٹینٹ خدا اگر لاک لگا دے تو حرکت بند ہو جاتی ہے، انسان قومے کی حالت میں زندہ لاش بن کر جامد ہو جاتا ہے۔

رہی بات کلام پڑھنے اور غیبی مدد کے آ پہنچنے کی تو آپ اس سے انکار کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ قرآن بھرا پڑا ہے ـــ خدا کو پکارنے کی صورت غیبی امداد میسر آ جانے کے تذکرہ سے، سیرتِ رسولؐ لدی پڑی ہے، پیغمبروں اور مجاہدینِ اسلام کی مبارک زندگیاں گواہ ہیں کم من فئۃ قلیلۃ والے و دیگر اقسامِ معجزات پر۔

خدا کی نصرت کے سوا دھرا کیا ہے اس زندگی میں؟ تاہم، کوشش والی بات سے کوئی معقول انسان انکاری بھی کیسے ہو سکتا ہے؟ اب رہی بات جنید کے ہاں کلام پڑھنے کی صورت غیبی مدد کے ظہور کی تو میں نا چیز اپنے بدن و باطن کی پوری قوّت سے آپ کے اعتراض کو مسترد کرتا ہوں۔ اس کی تفصیلی وضاحت اگر کتاب کے تعارف میں موجود ہے۔

ایک بار پھر سُن لیں کہ آپ کیسا ہی تمسخر اڑا لیں، اِس بات کا مگر تجربہ و مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھی گئی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آیاتِ مبارکہ و مسنون دعاؤں کے ساتھ مؤکلات جڑے ہیں، کوئی توانائی سی توانائی ہے جو ایکٹو ہوتی ہے۔ یہ کبھی خیال بدل ڈالتی ہے تو کبھی فزیکل ورلڈ کی صورتِ حال بدلا کرتی ہے۔

آیتِ کریمہ کا وِرد کرتے ہی جنید پر اس خیال کا وارد ہونا کہ اس کے دائیں جوتے کا تسمہ کھلا ہے جس کے ری ایکشن میں وہ عین اُس مقام پر جُھک گیا ہے، اور دشمن کے وار سے بچ نکلا ہے، ایسی ہی ایک غیبی مدد ہے۔

آپ نہیں مانتے، بَہ صد شوق نہ مانیں۔ باقی، ہر ہر کام یابی کا انحصار بَہ ہر حال کوشش، عمل، ایثار، حکمتِ عملی، نیت و خلوص پر ہی ہے ــــ جیسا کہ واضح طور

اس کہانی میں دکھایا گیا۔

آخر میں، دیگر قارئین کے علاوہ جماعتِ اسلامی والے سب بھائیوں اور بہنوں کو میرا خصوصی سلام۔ ایسی محبت، ایسی وسعت!