الیکشن 2018 کے کانٹے دار انتخابی دنگل

حسین جاوید افروز
حسین جاوید افروز

الیکشن 2018 کے کانٹے کے انتخابی دنگل

از، حسین جاوید افروز

عام انتخابات 2018 کا بگل بجنے میں ایک ہی ہفتہ رہ گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں کراچی تا خیبر تک انتخابی گہما گہمی اپنے نقطہ عروج کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف جوش سے لبریز انتخابی گھوڑوں پر سوار ولولے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے تو دوسری طرف ن لیگ کے شیر مریم نواز اور نواز شریف کی جیل یاترا کے باوجود اپنے سیاسی قلعوں کی صف بندی میں مشغول ہیں۔ جب کِہ پی پی پی بھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں تیر اندازی کی مشق میں سرگرداں ہے تو دوسری طرف ایم کیو ایم کی پتنگ دھیمی رفتار میں ہی سہی کچھ اڑان بھرنے کی تیاریوں میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہے۔

جب کِہ مذہبی جماعتوں نے بھی ایک بار پھر ایم ایم اے کی کتاب کا نیا ایڈیشن جاری کیا ہے دیکھیں یہ ایڈیشن اس بار کس حد تک ہاتھوں ہاتھ بک پاتا ہے؟ اور تو اور یہاں سندھ میں جی ڈی اے بھی اپنے مقدر کا ستارہ چمکانے کی کوشش میں مگن ہے۔ مجموعی طور پر ملک کے دس کروڑ سے زائد ووٹر حضرات کا اعتماد جیتنے کی جنگ مختلف سیاسی جماعتوں میں شروع ہو چکی ہے۔ آئیے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں چند اہم اور حلقوں کا جائزہ لیں جہاں کانٹے دار معرکے متوقع ہیں۔

این اے 8 مالاکنڈ کی فضا ہمیشہ سے ہی مذہبی رجحان کی حامل رہی ہے اور یہاں کے ووٹرز اس حوالے سے مشہور ہیں کہ وہ باہر سے آنے والے امیدوار کے لیے اتنے مہربان ثابت نہیں ہوتے بل کِہ made in Malakand برانڈ کو ہی اولیت دیتے ہیں۔ لہٰذا اب تک کی انتخابی حرکیات کے مطابق تحریک انصاف کے جنید اکبر خان مالاکنڈ میں فیورٹ کی دوڑ میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے لیے یہ حلقہ اس چناؤ میں سب سے زیادہ مشکل ثابت ہونے والا ہے۔ مزید براں وہ اس حلقے کے بنیادی رجحانات، اور حرکیات سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ البتہ ایم ایم اے کے مولانا گل نصیب اس حلقے کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہیں لہٰذا اصل مقابلہ ایم ایم اے اور تحریک انصاف کے درمیان ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اسی طرح اگر بنوں کے حلقہ این اے 35 کا جائزہ لیا جائے تویہ حلقہ 2002 سے جمعیت کا قلعہ رہا ہے اور یہاں سے گزشتہ انتخابات میں اکرم درانی اور مولا فضل الرحمن بھاری اکثریت سے منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان نے جب سے اس حلقے میں اکرم درانی کے خلاف قدم رکھا ہے تو بنوں کے عوام میں جوش و خروش بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بظاہر یہاں تحریک انصاف کا روایتی ووٹ بینک موجود نہیں، لیکن اگر عمران خان یہاں سے سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف اکرم درانی بل کِہ جمعیت علمائے اسلام کے لیے بڑا دھچکا ہو گا۔

اب تک کی انتخابی حرکیات کے مطابق اکرم درانی کو حلقے میں مسلسل موجود رہنے کا فائدہ پہنچ سکتا ہے جب کِہ عمران اس حلقے کو ان کے مقابلے میں زیادہ وقت بھی نہیں دے پائے ہیں۔ لیکن عمران خان اب بہرحال کسی بھی امیدوار کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں کیوں کِہ گزشتہ چناؤ میں اپنے اسی کرشمے کی بنیاد پر وہ پنڈی میں حنیف عباسی اور پشاور میں غلام بلور کو ہرانے میں کامیاب رہے تھے۔ لہٰذا یہ حلقہ اکرم درانی کی سیاسی بقاء کے لیے بھی بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

اگر چہ اکرم درانی نے یہاں ہسپتال اور یونیورسٹی بھی بنائی مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سات جولائی کے خود کش حملے کے بعد امن و امان کے مسائل بھی ہنوز موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اس حلقے نے ماضی میں قبائلی علاقوں کے لاکھوں پناہ گزینوں کا بھی بوجھ برداشت کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذہبی رجحان کے حامل اس حلقے میں عمران خان کی لہر کتنے پرانے برج الٹ پاتی ہے؟

اسی طرح ایک بہت ہی ہائی وولٹیج مقابلہ اسلام آباد کے حلقہ این اے 53 میں عمران خان اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ما بین ہونے جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ عباسی صاحب کا روایتی حلقہ نہیں ہے ان کا روایتی حلقہ مری میں این اے 57 رہا ہے جہاں سے وہ کئی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ یہ حلقہ اسلام آباد میں نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں بننے والا تیسرا حلقہ ہے جو اس سے قبل این اے48 کہلاتا تھا۔ تاہم پچھلے پانچ برسوں میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اسلام آباد تحریک انصاف کا گڑھ بنتا دکھائی دیتا ہے۔ اس بار عمران خان کی آمد سے اس حلقے کے پوش علاقوں جیسے ایف ایٹ، ایف ٹین، ای ایٹ، ای نائن، جی ٹین اور آئی ٹین وغیرہ میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک پہلے سے زیادہ پرجوش دکھائی دے رہا ہے۔


مزید دیکھیے: 1۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور لوڈ شیڈنگ کی ذمے داری

زوال پذیر ایم کیو ایم

ملیر کا مجرم کون؟


دوسری جانب شاہد خاقان عباسی بھی حلقے میں اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں مگر ان کے سامنے عمران خان کی شکل میں ایک طاقت ور امیدوار موجود ہے۔ اب تک کی سروے رپورٹس کے مطابق اس حلقے میں تحریک انصاف کا پلہ بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ جب کِہ حلقے کے عوام، سیوریج، تجاوزات، ٹوٹی سڑکوں اور صفائی کے نا گفتہ بے حالات کے سبب طارق فضل چوہدری سے سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں جس کا خمیازہ شاہ خاقان عباسی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

جب بات ہو پنڈی کی سیاست کی تو سارے پاکستان کو ایک ہی حلقے کے نتائج کا انتظار رہتا ہے اور وہ ہے شیخ رشید احمد کا حلقہ جو اب این اے 55,56 کے بجائے این اے 60,61 میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لیکن ’’فرزند پاکستان‘‘ کا جوش ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب کِہ ن لیگ کی جانب سے حنیف عباسی ان کے مد مقابل ہیں جو اس سے پہلے بھی شیخ رشید کو 2008 کے الیکشن میں ہرا چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد حنیف عباسی نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ان کے سر پر ایفیڈرین کیس کی تلوار بھی الگ لٹک رہی ہے۔ علاوہ ازیں نواز شریف کی جی ٹی روڈ یاترا میں بھی وہ قابل ذکر کراؤڈ جمع کرنے میں بری طرح نا کام رہے۔ لہٰذا ان کے سامنے اب 2008 کے بجائے 2018 کا شیخ رشید ہے جو اس بار ان کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو گا۔

اگر چہ اس حلقے میں میٹرو، جدید ہسپتال اور سپورٹس کمپلیکس بنا کر حنیف عباسی نے عوامی خدمت جاری رکھی مگر ن لیگ کی موجودہ پریشان کن پوزیشن اور پنڈی کی لیگی قیادت کے ساتھ اختلافات ان کے لیے مزید مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔ جب کِہ دوسری طرف شیخ رشید ایک روایتی پنڈی بوائے کی طرح بھرپور انداز سے دن رات چکلالہ، کینٹ، مری روڈ، سٹیلائٹ ٹاؤن، ایوب پارک، اورشمس آباد جیسے علاقوں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

اسی طرح چوہدری نثار علی خان بھی ن لیگ سے الگ جیپ کے نشان پر بطور آزاد امید وار پنڈی کے حلقے این اے 59 سے میدان میں مضبوط پوزیشن لیے موجود ہیں۔ ان کا مقابلہ لیگی امید وار قمر السلام سے ہے جو صاف پانی کیس میں جیل میں مقید ہیں۔ یہ حلقہ بنیادی طور پر چوہدری نثار کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے ان کے سامنے ن لیگ چھوڑنے کے باوجود کوئی بڑا چیلنج سر اٹھاتا نظر نہیں آتا۔ کیوں کِہ گزشتہ کئی دھائیوں سے چوہدری نثار نے اس حلقے جس میں لالہ زار، گلریز، پولیس فاؤنڈیشن، روات، چک بیلی، کلر سیداں کے علاقے شامل ہیں میں بے پناہ ترقیاتی کام کرائے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے عوام ان کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔

راولپنڈی سے آگے جہلم جائیں تو یہاں بھی ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان این اے67 میں زبردست کھڑاک متوقع ہے۔ کپتان کی طرف سے فواد حسین چوہدری کا مقابلہ یہاں کے روایتی لیگی امیدوار مطلوب مہدی سے ہو گا جن کا خاندان کئی بار اس حلقے میں اپنی جیت رقم کر چکا ہے۔ اس حلقے میں جہلم سے لے کر پنڈ دادن خان تک کے علاقے شامل ہیں جہاں فواد چوہدری کا موثر ووٹ بینک موجود ہے۔ تاہم مہدی خاندان کا مقامی نیٹ ورک بھی مکمل طور پر فعال ہے جس کی بدولت یہاں زور دار مقابلے کا امکان پایا جاتا ہے۔

البتہ جہلم میں تحریک انصاف کا مقامی اور پرانا سپورٹر فواد چوہدری فیملی کو قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں دینے پر نالاں ہے اور یہی نکتہ مطلوب مہدی اور چوہدری ندیم خادم کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

جہلم سے آگے اگر سیالکوٹ تک جائیں تو یہاں این اے 73 میں خواجہ آصف اور عثمان ڈار کے درمیان خاصا گرما گرم انتخابی دنگل متوقع ہے۔ جہاں اپریل میں خواجہ آصف کی نا اہلی نے ن لیگ کو حواس باختہ کر دیا تھا وہاں عثمان ڈار کے کیمپ میں خوب مٹھائیاں بانٹی گئی۔ مگر جون میں خواجہ آصف کی بحالی سے عثمان ڈار کے لیے یہ حلقہ خاصے گھمبیر نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ دوسری طرف خواجہ صاحب اپنے روایتی بے لاگ سٹائل میں بطور’’ منڈا سیالکوٹیا‘‘ مکمل فارم میں ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اقبال چوک، کوٹلی بہرام، گوہد پور، سیالکوٹ کینٹ اور کریم پور پر مشتمل اس حلقے میں اپنا سکہ دوبارہ جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان کے دل زندہ دلان لاہور میں اس بار بھی الیکشن کی گہما گہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور کی قومی اسمبلی کی 14 نشستوں میں سے ن اور جنون کے درمیان گھمسان کا رن پڑے گا یا اس بار بھی ن لیگ اپنے سیاسی قلعہ کا موثر دفاع کر پائے گی؟ اگر غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے اور چودہ میں سے چار سے پانچ نشستیں حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

بہر حال اس بار ن لیگ کے روایتی گڑھ این اے 125 میں سخت جوڑ پڑے گا جہاں ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی مشہور زمانہ ڈور ٹُو ڈور مہم کے ذریعے ن لیگ کے قلعے میں دراڑ ڈالنے میں مگن ہیں۔ کیوں کِہ مریم نواز کے اس حلقے کو چھوڑنے کے بعد یہاں اچانک وحید عالم کو اتارا گیا ہے جس سے ن لیگ کو از سَرِ نَو اپنی حکمت عملی ترتیب دینا پڑ رہی ہے۔

تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ یہاں آخری لمحے تک سخت مقابلے کی توقع ہے اب دیکھنا ہے کہ کیا شیر دھاڑے گا یا بلا سنچری مارے گا؟ اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا تھنک ٹینک بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ ساندہ، داتا دربار اور مزنگ تک پھیلے اس حلقے میں اپ سیٹ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہو گا۔

اگر لاہور کے سب سے بڑے انتخابی معرکے پر چرچا کی جائے تو بغیر کسی شک و شبے کے چونگی امر سدھو، ڈیفنس، کماہاں، بھٹہ چوک، کینٹ، آرے بازار، والٹن، کیولری گراؤنڈ اوربیدیاں تک پھیلے ہوئے حلقے این اے131 میں عمران خان اور سعد رفیق میں دست بدست انتخابی لڑائی متوقع ہے۔ یہاں یہ عامل قابلِ ذکر ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے جس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کِہ لاہور کے پوش علاقے جو اس حلقے میں شامل ہیں ان کا جھکاؤ واضح طور پر عمران خان کی جانب جاتا دکھائی دیتا ہے۔

یوں خواجہ سعد رفیق کو اپنی سیاسی زندگی کے سب سے کٹھن چیلنج کا سامنا ہے۔ دوسری طرف دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان جن کی جم پل شہر لاہور کی ہے وہ کئی بار یہاں سے الیکشن میں کھڑے ہوئے، مگر جیت کا مزہ نہیں چکھ سکے شاید اس بار وہ اس بد شگونی کا اثر زائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

لاہور ہی کا ایک اور اہم حلقہ جو مغل پورہ، مصطفیٰ آباد، دھرم پورہ،  داروغہ والا، فتح گڑھ، ہربنس پورہ اور گڑھی شاہو کے علاقوں پر مشتمل ہے این اے 129 کہلاتا ہے۔ جہاں چند سال پہلے عمران کے دست راست عبدالعلیم خان کا ضمنی چناؤ میں سردار ایاز صادق سے جوڑ پڑا جس کے نتیجے میں ن لیگ بمشکل اپنی سیٹ ہی بچا پائی۔ اس بار بھی انتخابی پنڈتوں کے مطابق عبدالعلیم خان کا پلہ بھاری دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ ان کی اس حلقے پر مکمل گرفت کو بتایا جا رہا ہے۔ جب کِہ سردار ایاز صادق جو اسی حلقے سے عمران خان کو ایک سے زیادہ مرتبہ ہرا چکے ہیں اس بار اپنا حلقہ بدلنے کی کوشش میں نا کام رہے اور لگ ایسا ہی رہا ہے کہ ان کو بھی اپنی زندگی کے مشکل ترین الیکشن کا سامنا ہے۔

کتنی دل چسپ بات ہے کہ عمران اور ایاز صادق کی دوستی ایچی سن کے دور سے چلی آ رہی تھی اور ایاز صادق تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک تھے مگر سیاست کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بچپن کے دوستوں کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا۔

لاہور کے بعد اب اگر شہر قائد کراچی کی بات کی جائے تو 1987 کے بعد اب شہر کی سیاسی فضا ایم کیو ایم کے اثر سے آزاد ہوئی ہے۔ یوں اس بار تحریک انصاف، پاک سر زمین پارٹی، پی پی پی، ایم ایم اے اور اے این پی اس خلاء کو پر کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ کراچی کا سب سے دل چسپ حلقہ این اے 243 کو قرار دیا جارہا ہے جہاں سے اس بار عمران خان اکھاڑے میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلشن اقبال،  گلستان جوہر، جمشید کوارٹرز، بہادر آباد، عیسیٰ نگری، حسن اسکوائراورجامعہ کراچی پر مشتمل یہ حلقہ خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہاں عمران کے مد مقابل سابق ڈپٹی سپیکر سندھ شہلا رضا پی پی پی کی امید وار ہیں جب کِہ ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی بھی اپنی انتخابی مہم میں زور و شور سے مصروف عمل ہیں۔

اب اگر علی رضا عابدی اردو سپیکنگ طبقے کی حمایت ایک بار دوبارہ سے ایم کیو ایم کے جھنڈے تلے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو عمران خان کے لیے یہ حلقہ چیلنج بن سکتا ہے۔ تاہم اس حلقے کی اکثریت پولنگ ڈے پر تبدیلی کے عوامل پر بھی اپنا اعتماد ظاہر کر سکتی ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی اس حلقے میں پتنگ اور بلے کے ما بین انتہائی سخت مقابلے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ اگر چہ سانحہ مستونگ، پشاور اور بنوں کے بعد انتخابی مہم کو دھچکا ضرور لگا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ امر باعث طمانیت ہے کہ وطن عزیز گزشتہ ایک دھائی سے مسلسل تیسرے عام انتخابات کی جانب کامیابی سے گامزن ہے جو کہ ملک میں جمہوری بنیادوں کو مزید استحکام اور گہرائی عطا کرے گا۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔