دہلیز کے پار

دہلیز کے پار
base illustration via Indian Express

دہلیز کے پار

افسانہ از، سمیرہ رفیق

کمرے میں داخل ہو کر ایک جانب پڑی کھلی کتاب کے پنے پلٹتے ہوئے اس کی نظریں چند سطروں پر ٹھہر سی گئیں، لفظوں کے عقب سے ماضی نکل نکل کر ذہن کی اسکرین پر ابھرنے لگا۔

وہ ننھے ننھے ہاتھ اٹھائے بڑی بہن سے پوچھ رہی تھی، ’’آپی! کیا ہم خدا سے سب کچھ مانگ سکتے ہیں؟‘‘

ہاں! ہاں! گڑیا! سب کچھ۔۔۔!

آنکھوں میں معصومانہ استعجاب لیے: ’’اچھا! تو کیا بھالُو بھی؟ گڑیا بھی؟ اور کھانا بھی مانگ سکتے ہیں؟‘‘

بڑی بہن مسکرائی اور پیار سے ننھی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی: ’’ہاں ہاں! میری جان سب کچھ مانگ سکتے ہیں‘‘

ننھے ہاتھ پھر سے دعا میں مشغول ہو گئے۔ آنکھیں بند کیے سر ہاتھوں پر اور بھی جھک گیا اور اپیا حیرت آمیز تبسم لیے اسے دیکھتی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ننھے ہاتھ بڑے ہاتھوں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ دعائیں اپنا رنگ بدل رہی تھیں۔ چھوٹی باتیں اب بڑی باتوں اور سوچوں کا روپ دھارنے لگی تھیں۔ اُسی ڈھب سے راز و نیاز کی خُو آج لبوں پر یہ سوال نما دعا بھی لے آئی:

’’خدایا! میں کون ہوں؟ کہاں سے آئی ہوں اور کس لیے؟ یہ دنیا کیا ہے؟ زندگی کیا ہے؟ ان سب کی حقیقت کیا ہے؟ اے خدا! میری مدد کریں۔ میں کس سے ان کا جواب مانگوں؟‘‘

وہ رات کسی نہ کسی پہر چپکے چپکے دعائیں مانگا کرتی لیکن جواب ندارد۔۔تنہا کھوج کے سفر میں اپنے ارمانوں اور خوابوں کی تتلیاں پکڑنے اسے بہت دور نکل جانا تھا۔ لیکن مزید قدم اٹھانے کے لیے اب نہ کوئی زمین باقی بچی تھی نہ ہی وہ آسمان جسے تکتے تکتے وہ اپنے رب کو پکارا کرتی تھی کیوں کہ ریتی رواج کے نام پر جبر و تسلط کی چادر اس کے سر پر اوڑھائی جا رہی تھی، اسی رات جب زبر دستی اس کا رشتہ طے کرنے کا سوچا جا رہا تھا تو وہ احتجاج پر آمادہ ہو گئی۔۔۔

’’نہیں ماں نہیں! میں یہ شادی نہیں کروں گی۔۔۔ مجھے پڑھنا ہے۔ بہت کچھ بننا ہے۔ میں تا عمر جھاڑو پونچا اور برتن مانجھ مانجھ کر خود کو ضائع نہیں کر سکتی۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی جینے کا سلیقہ۔۔۔‘‘

’’ارے پاگل! شوہر جب ٹھیک ٹھاک کماتا ہو، تو کیا ضرورت ہے اتنا پڑھنے گھر سے باہر تھکنے اور جاب کرنے کی!‘‘

’’ماں! شوہر ہی نہ ہو؟ یا ان پڑھ ہو؟ یا شوہر ہی نہ رہے تو عورت کو کون سنبھالا دے گا؟ غریب، یتیم، بیوہ، طلاق یافتہ اور اکیلی عورت کے سر پر کون ہاتھ رکھتا ہے؟ حاصل کردہ تعلیم، اس کا نام و مقام یا معاشرہ؟ چھوڑیں! آپ نہیں سمجھیں گی! شادیاں ایک دن ہو جاتی ہیں۔ بندہ پہلے اپنا مقام تو بنا لے۔‘‘

ماں چپ ہو گئی، پر ہتھیار ڈالنے والی وہ بھی نہ تھی:’’مگر شادی تو ہم کسی اعلیٰ ذات والوں میں ہی کریں گے۔ چھوٹی ذات والے ایک نہ ایک دن اپنا رنگ ڈھنگ دکھا ہی دیتے ہیں۔۔۔‘‘

’’اچھا ماں اچھا بس!‘‘

خدا خدا کر کے اس روز بلا ٹلی تھی۔ گھر کے اندر سرد جنگ سے وہ پیچ و تاب کھانے لگی۔ بے بسی اب بھاری سِل کی مانند اس کے کاندھوں کو جکڑ رہی تھی۔ اب جاؤں تو جاؤں کہاں؟ اس بھری دنیا میں۔۔۔ پر لگائے کہیں اڑ جاؤں۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی۔

اپیا کی شادی بھی زبر دستی کرائی گئی تھی۔ داماد کیا تھا صرف دولت مند نیشنلٹی ہولڈر جس کے انتظار میں با شعور و با صلاحیت کو یک سرمسترد کر دیا گیا تھا۔ ماں کے نزدیک اسی طرح سکھی رہنے کا نام زندگی تھا۔ جب کہ اپیا کی حیثیت اب سوکھی ڈلی سے زیادہ اورکچھ نہ تھی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد جب وہ گھر آئی تو ننھی کا سب سے پہلا سوال ہی یہ تھا۔

’’آپی! کیا بچے پیدا کرنا ہی زندگی کا مقصد ہے؟‘‘

’’دیکھو ردا! یہ سب civilized جانور ہیں!‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’مطلب یہی کہ جانور بے عقل، بے زبان ہے مگر انسان سلیقے سے اوڑھتا پہنتا ہے، کھاتا، پیتا سب کچھ کرتا ہے۔ اس بنا پر حیوان سے صرف ایک درجہ افضل ہے! شادی کے دو روز بعد ہی شوہر بیوی سے گڈ نیوز کی خواہش کرتا ہے تا کہ معاشرے میں اسے جلد از جلد پورا مرد ہونے کی سند مل جائے بہ صورتِ دیگر اپنے آپ سے بھی مُنھ چھپاتا پھرے گا۔‘‘

’’ہونہہ! یہ انتہائی پست ذہنی سطح ہو جس معاشرے کی وہاں کیا کوئی مرد کیا کوئی عورت پنپ پائے گی آپی؟ ماتھے پر ایک بھی شکن لائے بغیر ہر ہر حکم کی غلام عورت چلتی پھرتی ہنستی مسکراتی روبوٹ بنی کام کرتی رہے بس!‘‘

اپیا کی زندگی بھی روبوٹک ہو چلی تھی جسے ما سوائے ننھی کوئی محسوس نہ کرپایا تھا۔ ایک شیلٹر کی خاطر عورت کیا کچھ نہیں سہتی؟ افسوس! صد افسوس! خدایا! میرے ساتھ ایسا نہ ہو، وہ سوچ کر خائف ہو جاتی۔ اُس کی ڈولی اٹھائے جانے کی خبر راتوں رات خاندان کے کانوں تک جا پہنچی۔ اس دوران راہ نُما ہاتھ اس کی زندگی میں شامل ہو چکے تھے۔ لیکن اماں بضد تھیں:

’’وہاں رشتہ نہیں کرنا تمہیں کوئی مُنھ نہیں لگائے گا۔‘‘

’’کیوں؟ ۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔ کیوں کہ میں اپنی پسند کی بات کر رہی ہوں تو جرم ہو گیا؟ مجھے ذہنی ہم آہنگی ذہنی رفاقت درکار ہے تو اس میں برا کیا ہے؟ مجھے کوئی حق حاصل نہیں ایک علم دوست، با شعور انسان کا ساتھ چُنوں؟ آپ مجھے اپیا مت سمجھیں جو جھوٹی روایات کے نام پر ڈر کر ہمت ہار گئیں۔ اور وہ داماد آپ کا؟ اس کی عقل کہاں ہے! جو آپی کو ان کی شناخت تک نہ دلا سکی۔ وہ شخص تو بیوی کی پڑھائی کے بھی حق میں نہیں! اپنی منشا و معیار کے رشتوں کے انتظار میں ان کا وقت اور عمر الگ سے برباد ہوئی اور بے جوڑ میل کا انتخاب، اپیا کی زندگی، خوشی اور شخصی جوہر کو الگ سے زنگ لگا گیا۔ آپ لوگوں نے برباد کر ڈالا انھیں۔‘‘

’’ارے چھوڑو! تمہاری بہن ہے ہی اسی قابل!‘‘۔۔۔

’’نہیں ماں! آج ان کا شوہر علم والا ہوتا تو اپیا نا جانے کہاں سے کہاں ہوتی۔۔۔‘‘

’’مگر میں کیا کروں؟ تم ہوتی تو دیکھتی تمہارے ابا اور بھائی نہیں مانتے تھے۔۔۔‘‘

’’تو امی آپی کا تو کوئی قصور نہ ہوا ناں؟۔۔۔ مگر میرے ساتھ یہ زور زبر دستی نہیں چلے گی۔۔۔ میں اپیا نہیں ہوں جو بس دیکھتی رہ جاتی ہے‘‘

’’قینچی کی طرح چلتی ہے اس کی زبان کاٹنی پڑے گی‘‘۔۔۔ اماں کمرہ چھوڑ کے جا چکی تھیں۔

اگلے ہی روز رشتہ طے کر دیا گیا۔ نشانی کے طور پر ایک چین اور انگوٹھی پہنائی گئی۔ اس رات وہ روتی پیٹتی رہی۔ پانی سر سے اوپر جا چکا تھا۔ دو ہفتے بعد اس کا سیدھا نکاح اور رخصتی بھی تھی۔

آج صبح جب ابو اور بھائی گھر پر نہ تھے تو ماں بیٹی میں زبر دست بحث چھڑ گئی جو فیصلہ کن انجام تک پہنچی۔

اس نے سنگھار میزسے دونوں چیزیں اٹھا کر مٹھی میں بھر لیں:

’’یہ لیں! انگوٹھی اور زنجی۔ واپس کریں انھیں یہ۔۔۔ جھوٹے لوگ جھوٹی شان۔ نفرت ہے مجھے ایسے سب لوگوں سے۔۔۔ مجھے جھوٹ کے عوض وہ لوگ خرید نہیں سکتے۔۔۔ نہ ہی آپ لوگ میرا سودا کر سکتے ہیں۔۔۔ ماں! مقدس احکام بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔۔۔ میں خود انھیں دے آتی ہوں۔۔۔‘‘

جُوں ہی اس نے دوسرا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر رکھا، اماں نے کلائی پکڑ لی اور اپنی طرف کھینچا اور زور دار طمانچہ اس کے مُنھ پر رسید کیا۔ ’’آنے دے تیرے ابا کو آج تیری خیر نہیں! تُو میری بھی طلاق کرائے گی اس عمر میں۔۔۔ تیرے ابا نے کہنا ہے۔۔۔ ارشاد بیگم! سر چڑھا رکھا ہے لڑکی کو! ہمیں سماج میں جینے دینا ہے یا نہیں؟ تجھے اس لیے پڑھایا لکھایا کہ تُو زبان چلائے! اپنا سر اٹھائے ہم سب کے سامنے اور حق کی باتیں کرے! اچھا کرتے تھے پرانے زمانے میں کم پڑھا لکھا کر چھوٹی سی عمر میں ہی بیاہ دیتے تھے۔ تب اتنی عقل کہاں ہوتی تھی لڑکیوں میں کہ زبان چلا سکیں۔۔۔‘‘

’’ماں! وہ با شعور تھیں ہی کہاں جو انسان ہونے کا حق حاصل کر پاتیں۔۔۔‘‘

’’چپ ہو جا نا مراد! چپ بے ادب! چپ ہو جا! اس علم والے کنگال سے شادی کرے گی جس کی ذات کا پتا نہ آ گا نہ پیچھا؟ ایک کرایے کا مکان اور بس جاب۔۔۔کرائیوں میں رل جائے گی! تو اس دن کو یاد کرے گی جب یہ اعلیٰ ذات کھاتا پیتا گھرانہ خود چل کر تیرا رشتہ لینے آیا۔ خون کے آنسو روئے گی تُو تب کوئی پلٹ کر بھی نہ دیکھے گا۔۔۔‘‘

اُس روز قتل سے پہلے ہی وہ خود کو خون کی ندیوں میں ڈوبتا دیکھ چکی تھی۔ خوشی و غم میں ملے جلے آنسو اس سطر پر جا گرے جہاں درج تھا۔۔۔ آج میری بارات نہیں۔۔ ۔نکلا ہے میرا جنازہ بھی۔۔۔ آنسو صفحے کو بھگو کر تمام کا تمام ماضی اور یادیں بہا لے گئے۔۔۔

پروفیسر ردا طُور نے اپنے دو پٹے کے پلُّو سے صفحے کو پونچھا اور کتاب ایک طرف رکھ دی۔ راہ نُما اور شفیق ہاتھوں نے کاندھا تھپک کر اسے گلے سے لگا لیا۔ آخری منظر پلکوں میں چھپائے کاندھے پر سر رکھتے ہی اس نے آنکھیں موند لیں۔۔۔ آخری منظر جب ذہن کی دیواروں سے ٹکراتے وہ چند الفاظ اُس نے زبان کی قید سے آزاد کر دیے تھے۔۔۔

’’ماں، بہن، بیٹی، بہو اور سب سے بڑی غلام بیوی۔۔۔ ہاں ماں!۔۔۔ ہاں! اس دور کے مہذب غلاموں کے مہذب اور شائستہ نام ہیں یہ۔۔۔ مقدس رشتوں کے نام پر رو ز میری حق تلفی ہو گی۔ وہ ڈگری ہولڈر جاہل روز میرا گلا گھونٹے گا۔ اس سے بہتر ہے میں اسی پڑھے لکھے کافر سے شادی کروں جسے آپ علم والا کنگال بھی کہتی ہیں۔ کم از کم وہ علمی بنیادوں پر مجھے شخصی آزادی تو دے گا۔ مجھے برابر کا انسان سمجھ کر پروان تو چڑھائے گا۔ سنا آپ نے؟ میں اسی پڑھے لکھے کافر سے شادی کروں گی۔ خدا حافظ!۔۔۔‘‘

بھنور سے اٹھ کر اپنے ہاتھ راہ نما ہاتھوں میں دینے کے لیے اس نے دہلیز کے پار یوں قدم رکھ دیے کہ دروازے کا کھلا پٹ بھی دیر تک تیز ہوا میں جھولتا رہا۔۔۔‘‘