انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط ہشتم)

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط ہشتم)

ترجمہ، نصیر احمد

سوال: تو آپ اپنی اندرونی حدود کا نظریہ مسٹر فُوکو کے چِلمن کے نظریے سے جوڑنے کے لیے رضا مند نہیں ہیں۔ یہاں کوئی خاص تعلق ہو تو سکتا ہے۔ دیکھیں مسٹر فوکو کہتے ہیں کہ کسی خاص سَمت میں جوش خَلّاقی چلمنوں کے ایک نظام کے ذریعے علم کو ایک اور سمت میں خود بَہ خود ہٹا دیتا ہے۔ تو، اگر آپ کے ہاں حدود کا بدلتا نظام ہے تو یہ نظریات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہو سکتے ہیں۔

چومسکی: خوب، جو وہ بیان کرتے ہیں، اس کی وجوہات میرے خیال میں مختلف ہیں۔ میں پھر اسے کچھ زیادہ ہی سہل بنا رہا ہوں۔ ہماری دانش کو زیادہ ممکنہ سائنسیں میسر ہیں۔ حقیقت کی بدلتی دنیا میں جب ہم یہ دانش وارانہ ساختیں آزمائیں گے تو ہمیں یہ بَہ تدریج بڑھتی افزائش نہیں ملے گی۔ جو ہمیں ملے گا، وہ انوکھی جَستیں ہوں گی۔ وضاحتی حقائق  کی ڈومین میں کسی سائنس کا احسن اطلاق ہو سکتا ہے۔ اب وضاحتی حقائق کی وسعت ذرا سی بڑھا دیں، اس سے بات تو بہت مختلف ہو جائے گی لیکن اس کا اطلاق بہت حسین ہو جائے گا اگر شاید ہم چند دیگر وضاحتی حقائق کو اس اطلاق میں شامل ہی نہ کریں۔ او کے، تو یہ سائنسی ترقی ہے جو چند خاص موضوعات کو شامل نہ کرنے اور بھولنے کے رستے پر لے جاتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ میرے خیال میں اصولوں کا ایک سیٹ ہے جس سے بد قسمتی سے ہم آگاہ نہیں ہیں اور جو اس ساری گفتگو کو تصوراتی بنا دیتا ہے، جو ہمارے لیے اگر آپ پسند کریں تو ایک ممکنہ ذہین ساخت، ایک  امکانی عمیق سائنس طے کرتا ہے۔

ایلڈرز: خوب، چلیں اب گفتگو کے دوسرے حصے سیاست کی طرف بڑھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں مسٹر فوکو سے پوچھنا پسند کروں گا کہ وہ سیاست میں اتنی  دل چسپی کیوں لیتےہیں۔ در حقیقت انھوں نے مجھے بتایا ہوا ہے کہ وہ سیاست کو فلسفے سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔

فوکو: میں اپنے آپ کو کسی طور پر بھی فلسفے سے متعلق نہیں سمجھتا۔ لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ (ہنستے ہیں)۔

تو آپ کا سوال ہے کہ میں سیاست میں اتنی دل چسپی کیوں رکھتا ہوں؟ اگر میں آپ کو اس بات کا سادہ سا جواب دوں تو میں یہ کہوں گا کہ مجھے سیاست میں دل چسپی کیوں نہیں لینی چاہیے؟ کہنے کا مطلب ہے کہ ایسی کون سی نا بینائی، ایسا کون سا بہرہ پن، نظریاتی نظام کا  ایسا کون سا گاڑھا پن ہے جس کے بوجھ تلے میں دبا اس موضوع میں دل چسپی لینے سے تھم جاؤں جو شاید ہمارے وجود کے لیے شاید سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے۔ یعنی فیصلہ کن ہے اس معاشرے کے لیے جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، فیصلہ کن ہے ان معاشی رشتوں کی قیود کے لیے جن معاشی رشتوں کی قیود میں یہ معاشرہ اپنا کردار نبھاتا ہے، اور طاقت کے اس نظام کے لیے بھی فیصلہ کن ہے جو ہمارے لیے روز مرہ صورتیں اور ہمارے طرزِ عمل کے لیے روز مرہ اجازتیں اور پا بندیاں طے کرتا ہے۔ پھر ہماری حیات کا جوہر اس معاشرے کی سیاسی کارکردگی ہی تو ہے جس میں ہم خود کو پاتے ہیں۔

اس لیے میں اس سوال کا یہ جواب نہیں دے سکتا کہ مجھے سیاست میں کیوں دل چسپی لینی چاہیے۔ میں تو یہی جواب دے سکتا ہوں کہ مجھے دل چسپی کیوں نہیں لینی چاہیے۔

ایلڈرز: تو دل چسپی لینا آپ کا فریضہ ہے، ایسا نہیں کیا؟

فوکو: ہاں ناں، یہ کم از کم اس سوال جواب کے لائق کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ سیاست میں عدم دل چسپی مسئلہ بناتی ہے۔ اس لیے یہ سوال مجھ سے پوچھنے کی بَہ جائے یہ سوال کسی ایسے سے پوچھیں جسے سیاست میں دل چسپی نہیں ہے۔ پھر آپ کا سوال خوبی پہ استوار ہو گا اور آپ کو پوچھنے کا یہ حق ہو گا کہ لعنت ہو اس بات پر کہ تم دل چسپی کیوں نہیں لیتے؟ (وہ ہنستے ہیں اور حاضرین بھی ہنستے ہیں)۔

ایلڈرز: جی اچھا، شاید۔ مسٹر چومسکی ہم سب آپ کے سیاسی مقاصد جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں خصوصاً طور پر آپ کے نراجی  مفاداتی جتھہ بندی کے نظریات کے حوالے سے یا جیسے آپ اسے آزادہ رو سوشلزم کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس آزادہ رو سوشلزم کے اہم ترین مقاصد کیا ہیں؟

چومسکی: مجھ سے پوچھے گئے پہلے دل چسپپ سوال  کا جواب دینے کی امڈتی امنگ پر قابو پاتے ہوئے میں اس سوال کی طرف مڑتا ہوں۔

آگیا ہو تو میں ایک ایسی چیز کے حوالے سے آغاز کرتا ہوں جس پر پہلے ہم بات چیت کر چکے ہیں۔ ایسے ہے کہ اگر یہ بات درست ہے جو کہ میرے نزدیک یقیناً درست ہے ہے کہ جوری اداروں کے محدود کرتے صوابدیدی اثرات کی عدم موجودگی میں تخلیقی کام کی، تخلیقی جستجو کی اور آزادانہ تخلیق کی ضرورت انسانی فطرت کا بنیادی عُنصر ہے تو یقیناً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک مہذب معاشرے کو چاہیے کہ  اس بنیادی انسانی وصف کے حصول کے امکانات کو میکسیمائز کرے۔ یعنی دباؤ، جبر، تباہی اور زور زبر دستی کے ایسے عناصر جو ایک موجود معاشرے میں پائے جاتے ہیں ان پر قابو پانے کی کوشش کرنا، مثلاً ہمارے معاشرے میں یہ عناصر تھوڑی سے تاریخی فضلے کی صورت میں موجود ہیں۔

اب گزارے کی  ضرورت کے نام پر، بقا کی ضرورت کے نام پر، بھاری بد نصیبی یا اس قسم کی کسی چیز کے خلاف دفاع کی ضرورت کے نام پر جور و جبر کی کسی شکل کے، جیون کے کسی نگر میں جابرانہ قبضے کی کسی شکل کے، مثلاً سرمایے کی نجی ملکیت کے، انسانی زندگی پر ریاستی قبضے کے کچھ پہلووں کے، جہدِ انسانی کے کسی رخ پر ایسی پا بندیوں کے جواز بنائے جا سکتے ہیں، اگر بنائے جا سکتے ہیں لیکن یہ جواز کسی باطنی بناء پر نہیں استوار کیے جا سکتے، بل کہ ان عناصر پر قابو پاتے ہوئے انھیں ختم کرنا ہو گا۔

میرے خیال میں کم اَز کم مغرب کے ٹیکنالوجی میں بڑھے ہوئے معاشروں میں ہم یقیناً ایسی جگہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں یہ بے معنی بے گار بڑی حد تک ختم کی جا سکتی ہے اور جہاں  کسی حد تک یہ ضروری ہے آبادی میں بانٹی جا سکتی ہے، جہاں اقتصادی اداروں پر جابرانہ مرکزی قبضہ (جس سے میری مراد یا نجی سرمایہ داری، یا ریاستی کاملیت پرستی یا ادھر ادھر موجود ریاستی سرمایہ داری کی ملی جلی شکلیں ہیں) تباہی خیز تاریخی کچرا بن چکا ہے۔

تو اس سب کچرے کو پرے پھینکنا ہو گا اور اسے کارکن کونسلوں کی شکل میں بَہ راہِ راست شرکت کے حق میں مٹانا ہو گا یا ان ایسوسی ایشنوں کی شکل میں بَہ راہِ راست شرکت کے حق میں مٹانا ہو گا جو افراد اپنے سماجی وجود اور پیداواری محنت کے مقاصد کے لیے خود ترتیب دیتے ہیں۔

جب میں مشترکہ مفادات پر مبنی نراجی گروہ سازی کے نظریات کا حوالہ دیتا ہوں تو اس سے میری مراد ایک خود مختارانہ نظام  کی ہوتی ہےجس میں ارتکاز شکست کر دیا گیا ہو اور جس میں معاشی اور معاشرتی ادارے شامل کر دیے گئے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ایک معاشرے کے لیے سماجی تنظیم کی یہ ایک بہتر شکل ہے جس میں انسانوں کو اوزار کی حیثیت میں مشین کے پرزوں کی طور پر مجبور نہیں کرنا پڑے گا۔ اب پیداواری عمل میں انسانوں سے میکانکی عناصر سا برتاؤ کرنے کی مزید سماجی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اس سب پر قابو پایا جا سکتا ہے اور  آزادی اور آزادانہ میل جول پر مبنی ایک معاشرے کے ذریعے ہمیں اس سب پر ضرور قابو پانا چاہیے اور اس معاشرے میں وہ تخلیقی امنگ جسے میں انسانی فطرت کا دروں سمجھتا ہوں جیسے چاہے اپنا آپ کھوج سکتی ہے، دریافت کر سکتی ہے، حاصل کر سکتی ہے، پا سکتی ہے۔

مسٹر فوکو کی طرح میں پھر کہوں گا کہ میں نہیں سمجھ پاتا کہ انسان اس سوال میں دل چسپی کیوں نہیں لیتے۔ (فوکو ہنستے ہیں)۔

ایلڈرز: مسٹر فوکو مسٹر چومسکی کا یہ بیان سننے کے بعد کیا آپ کو یقین ہے کہ ہم ہمارے معاشروں کو کسی طور جمہوری کہہ سکتے ہیں؟

فوکو: نہیں مجھے تو ذرا سا بھی یقین نہیں ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو جمہوری سمجھ سکتے ہیں۔

اگر کسی کی جمہوریت کہ یہ تفہیم ہے کہ اس میں ایک آبادی جو منقسم نہیں ہے اور طبقوں کی درجہ بندی پر مرتب نہیں ہے اور طاقت کا مؤثر استعمال کرتی ہے تو یہ کافی واضح ہے کہ ہم جمہوریت سے بہت دور ہیں۔

یہ بھی بہت واضح ہے کہ ہم ایک طبقے کی آمریت کی حکم رانی کے تحت جی رہے ہیں،کلاس کی طاقت کی آمریت کے تحت جو تشدد کے ذریعے حاوی ہوتی ہے، اس وقت بھی جب تشدد کے انسٹرومنٹس اداراتی اور آئینی ہوتے ہیں اور اس حد تک تو ہمارے لیے جمہوریت کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔

جب آپ نے پوچھا تھا کہ میں سیاست میں کیوں دل چسپی لیتا ہوں، میں نے جواب دینے سے انکار کر دیا تھا کہ مجھے لگا کہ  جواب تو صاف ہے۔ لیکن شاید آپ کا سوال یوں تھا کہ میں سیاست میں کیسے دل چسپی لیتا ہوں؟

اور اگر آپ نے یہ سوال مجھ سے پوچھا ہوتا اور ایک خاص سینس میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے پوچھا بھی ہے، میں کہتا کہ اپنے راستے پر اتنا نہیں بڑھا ہوں، میں مسٹر چومسکی سے بہت پیچھے ہوں۔ یوں ہے کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ  میں ہمارے سائنسی اور ٹیکنالوجییکل معاشرے کی فنکشننگ کے لیے میں کوئی آئیڈئیل معاشرتی ماڈل طے نہیں کر پایا ہوں اور نہ ہی ایسا کوئی ماڈل عمل کے لیے پیش کر پایا ہوں (اس کی وجوہات کافی گھمبیر ہیں)

دوسری طرف ایک ٹاسک جو مجھے فوری اور ضروری لگتا ہے، ہر شے سے بلند و بالا، وہ یہ ہے کہ ہمیں سیاسی طاقت کے رشتوں کی سَمت اشارے کرنے چاہییں، اور جہاں یہ رشتے چھپے ہیں، وہاں پر دکھانے بھی چاہییں کہ در اصل یہ رشتے سماج کے جسم پر قابض ہیں اور اس پر جبر کرتے ہیں یا اسے دباتے ہیں۔

جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یوں ہے۔ کم از کم یورپی معاشرے میں ایسا سمجھنے کا رواج ہے کہ طاقت حکومت کے ہاتھوں میں مقیم  ہوتی ہے اور چند خاص اداروں کی ایک خاص تعداد جیسے انتظامیہ، پولیس، فوج اور ریاستی لوازم کے ذریعے استعمال کی جاتی ہے۔

ایک فرد جانتا ہے کہ یہ سب ادارے  نیشن یا ریاست کے نام پر فیصلوں کی ایک خاص تعداد واضح اور نشر کرنے کے لیے، انھیں نافذ کرنے کے لیے اور جو اطاعت نہیں کرتے انھیں سزا دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

لیکن میرا ماننا ہے کہ سیاسی طاقت اداروں کی ایک خاص تعداد کے توسل سے بھی آزمائی جاتی ہے جو دکھائی تو ایسے دیتے ہیں کہ جیسے ان میں اور سیاسی طاقت میں کچھ مشترک نہیں ہے اور جیسے یہ آزاد ہیں لیکن ایسے یہ ہوتے نہیں۔

ایک فرد انھیں کنبے سے ناتے میں جان لیتا ہے۔ یونی ورسٹی کو تو ایک فرد جانتا ہے اور عمومی طور پر تمام تعلیمی نظام بَہ ظاہر تو علم پھیلاتے نظر آتے ہیں لیکن ایک خاص سماجی طبقے کو طاقت میں برقرار رکھنے کے لیے اور کسی دوسرے سماجی طبقے کی طاقت کے اوزاروں کو باہر رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

علم، پیش بینی اور خیال رکھنے کے ادارے جیسے ادویات بھی سماجی طاقت کی امداد اور حمایت کرتے ہیں۔ اور سائیکائٹری سے منسلک کچھ خاص کیسوں میں تو یہ بات تو سکینڈل کی حد تک واضح ہے۔

مجھے لگتا ہے ہمارے جیسے معاشرے میں حقیقی سیاسی ٹاسک ان اداروں کی کارکردگی پر  تنقید ہے جو آزاد اور غیر جانب دار دکھائی دیتے ہیں، ان اداروں پر اس طریقے سے تنقید اور حملہ کرنا ہے کہ سیاسی تشدد جو ہمیشہ آڑمیں چھپ کر  استعمال کیا جاتا ہے بے نقاب ہو جائے تا کہ کوئی ان اداروں سے لڑ سکے۔

مختلف وجوہات کی بناء پر مجھے یہ تنقید و جنگ لازمی لگتی ہیں۔ اوّل، سیاسی طاقت کسی کے شبہے سے بھی زیادہ گہری ہوتی ہے۔ مراکز اور  حمایت کے خفیہ نقطے ہوتے ہیں جو بہت کم جانے جاتے ہیں۔ اس کی (سیاسی طاقت کی) حقیقی مزاحمت اور اس کی حقیقی مضبوطی شاید وہاں ہوتی ہے جہاں کسی کو اس مزاحمت اور مضبوطی کی توقع ہی نہیں ہوتی۔ شاید یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ریاست کے لوازم کے پیچھے ایک غلبہ کرتا طبقہ ہوتا ہے۔ کسی کو سرگرمی، مقام اور روپ کا نقطۂِ کھوج دکھانا چاہیے جہاں طاقت کا غلبہ استعمال کیا جاتا ہے۔ چُوں کہ یہ غلبہ سیاسی اصطلاحوں میں معاشی استحصال کا سادہ سا اظہار نہیں ہوتا ہے، یہ ایک اوزار ہوتا ہے اور بڑی حد تک ایک کنڈیشن بھی جو اس استحصال کو ممکن بناتی ہے۔

ایک کو دوسرے پر مسلسل تفصیلی نظر کے ذریعے دبایا جاتا ہے۔ اچھا، اگر کوئی طبقاتی طاقت کی حمایت کے ان نقطوں کو پہچاننے میں نا کام ہو جاتا ہے تو وہ ان کے وجود کو جاری رکھنے کا خطرہ مول لیتا ہے، اور ایک ظاہری انقلابی عمل کے بعد اس طبقاتی طاقت کی دو بارہ تشکیل کا بھی  رسک لیتا ہے۔