انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط ششم)

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط ششم)

ترجمہ، نصیر احمد 

ایلڈرز: خوب، اگر ہم ابتدائی حد بندی کے اس نکتے کو اس کے تمام تخلیقی امکانات کے ساتھ اٹھاتے ہیں تو میرا امپریشن یہ بنتا ہے کہ مسٹر چومسکی کی نظروں میں قواعد اور آزادیاں ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں، بل کہ کم و بیش ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے بارے میں، مسٹر فُوکو، اس کے الٹ امپریشن بنتا ہے۔ آپ کے یوں مخالف سَمت میں جانے کے کیا اسباب ہیں؟ یہ اس مبا حثے کا بنیادی نکتہ ہے؟ امید کرتا ہوں کہ ہم اس کی صراحت کر پائیں گے۔

اس مسئلے کو دیگر اصطلاحوں میں ہم یوں ترتیب دے سکتے ہیں۔ کیا آپ جبر کی کسی شکل کے بَہ غیر کائناتی علم کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟

فوکو: خوب، مسٹر چومسکی نے ابھی جو کہا، مجھے لگتا ہے ذرا کٹھنائی پیدا کرتا ہے۔ شاید میں اسے اچھی طرح سے سمجھ نہیں پایا۔

میرا ماننا ہے کہ آپ سائنسی تِھیئری کی تدوین میں امکانات کی ایک محدود تعداد کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ چاہے جتنا بھی ہو لیکن وقت کے ایک مناسب حد تک مختصر دورانیے تک اگر آپ خود کو محدود رکھیں تو آپ درست فرما رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک طویل دورانیے پر توجُّہ دیتے ہیں تو مجھے لگتا ہے جدا رستوں کے امکانات کی کثرت بر ملا ہے۔

ایک طویل عرصے سے یہ خیال موجود ہے کہ علم اور سائنس پروگریس کی ایک خاص لکیر کی پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں: افزائش کے اصول کی، اور ہر قسم کے علوم کے یک جا ہونے کے اصول کی متابعت کرتے ہوئے۔

لیکن جب کوئی دیکھتا ہے کہ یورپی تفہیم کی ترقی کیسے ہوئی جو اب ایک تاریخی اور جغرافیائی سینس میں ایک عالم گیر کائناتی تفہیم بن چکی ہے؛ یہ سب دیکھ کر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ افزائش ہوئی ہے؟ بَہ ذاتِ خود میں تو یہ کہوں گا کہ یہ معاملہ افزائش سے زیادہ تغیرات کا ہے۔

حیوانات اور نباتات کی درجہ بندی کی مثال لے لیں۔ قرونِ وُسطیٰ سے لے کر اب تک  کیا علامتیت، فطری تاریخ، عصری علوم اجسام، اور ارتقاء کی تِھئیری کئی بار مختلف قواعد کے مطابق اس درجہ بندی کی تصنیف نہیں کر چکے؟ اور ہر دفعہ یہ تصنیفات علم کو اس کے کردار، اس کی معیشت اور اس کے اندرونی روابط میں کُلی طور پر مختلف بنا دیتی ہیں۔

یہاں آپ کے پاس افزائش سے زیادہ ایک طرزِ جدائی، یا نئے موڑوں کا اصول ہے؛ بَل کہ میں تو یہ کہوں گا کہ ایک ہی وقت میں علم کی مختلف اقسام کو ممکن بناتے کئی راستے ہیں۔

اس لیے ایک خاص نقطۂِ نظر کے مطابق ایک خاص دور میں ممکنہ نظاموں سے متعلق ہمیشہ معلومات کی زیادتی ہوتی ہے جو ان نظاموں کو ان کی حدود میں ان کی قلت سمیت تجربہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ کوئی ان کی (نظاموں کی) خَلّاقی کی تفہیم میں نا کام ہے۔ اور اگر ایک اور نقطۂِ نظر سے دیکھیں تو، مورخ کے نقطۂِ نظر سے، تو اک وفور ہے، معلومات کی مختصر سی مقدار پر مبنی نظاموں کی کثرت ہے جس سے سارے میں پھیلا یہ خیال جنم لیتا ہے کہ نئے حقائق کی دریافت سائنس کی تاریخ میں تحرک طے کرتی ہے۔

چومسکی: شاید یہاں پھر مجھے تھوڑی سی آمیزہ سازی کرنے دیں۔ میں آپ کی سائنسی ترقی کی تصور سازی سے متفق ہوں۔ یوں ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ سائنسی ترقی نئے نظریوں کے انجذاب اور نئے علوم کے مجتمع اضافے کا سادہ سا دائمی مسئلہ ہے؛ بل کہ جیسے آپ نے بیان کیا ہے سائنس کے ہاں آڑھا ترچھا پیٹرن ہے جو خاص مسئلے فراموش کرتے ہوئے نئی تِھئیریوں کی طرف جَست انداز ہو جاتا ہے۔

فوکو: اور انھی علوم میں تغیرات بنانے لگتا ہے …

چومسکی: جی ہاں، لیکن میرے خیال میں اس کے لیے ایک عاجلانہ سی وضاحت پیش کی جا سکتی ہے۔ جو اب میں کہنے جا رہا ہوں اس کو میں حرف بَہ حرف تو نہیں مانتا، لیکن کوئی فرض کر سکتا ہے کہ اس وضاحت کے عمومی خطوط صیحیح ہیں۔ ایسے ہے کہ جیسے ایک خاص حیاتیاتی تنظیم پر استوار انسان کے بَہ طور، ہمارے سروں میں ممکنہ ذکاوتی ساختوں اور ممکنہ سائنسوں کا ایک سیٹ موجود ہے۔ او کے؟

 اب اگر قسمت اچھی ہے تو حقیقت کے کسی پہلو میں وہی خصوصیت ہے جو ہمارے دماغ کی ساختوں میں موجود ہے، تو ہمارے پاس ایک سائنس آ گئی ہے۔

یوں کہنا مناسب ہو گا کہ خوش قسمتی سے ہمارے ذہن کی ساختیں حقیقت کے کسی پہلو کے سانچوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک  واقع ہوتی ہیں کہ ہم ایک قابلِ تفہیم سائنس ڈیویلپ کر لیتے ہیں۔

 ہمارے ذہنوں میں ممکنہ سائنس کی ایک خاص قسم کی یہی ابتدائی حد بندی سائنسی علوم کی خَلّاقی اور پُر شِکَوہ امیری فراہم کرتی ہے۔ اس بات پر زور دینا ضروری ہے … اور اس کا کچھ لینا دینا آپ کے آزادی اور حد بندی کے نکتے سے بھی ہے، اگر یہ حد بندیاں نہ ہوتیں تو ہم تھوڑے سے علم، تھوڑے سے تجربے سے ایک عمدہ طریقے سے بیان شدہ پیچیدہ علم کے ایک مربوط گنجینے کی طرف رواں نہ ہو سکتے، کیوں کہ اگر سب کچھ ممکن ہوتا تو کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا۔

یہی ہمارے ذہنوں کے مِلک ہی تو ہے جسے ہم جُزئیات میں نہیں سمجھتے، مگر میرے خیال میں ایک عام طریقے سے سمجھنے کا آغاز کر دیتے ہیں جو ہمارے سامنے خاص قسم کے ممکنہ قابلِ تفہیم سانچے پیش کرتی ہے جو تاریخ، تجربے اور بصیرت کی راہ گزر میں دائمی طور پر توجہ کا مرکز بننے لگتے ہیں، یا توجُّہ کے مرکز سے ہٹنے لگتے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ ہمارے ذہنوں کی اسی مِلکیت کی وجہ سے سائنسی ترقی لغزشوں سے بھرے ٹیڑھے میڑھے کردار کی حامل ہے، جیسے آپ فرماتے ہیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ آخرِ کار ہر شئے سائنس کی مملکت میں سمٹ آئے گی۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ بہت ساری چیزیں جن کی تفہیم ہمیں پسند ہے اور شاید بہت ساری چیزیں جن کی تفہیم ہمیں بہت زیادہ پسند ہے، جیسے انسان کی فطرت، یا ایک بھلے معاشرے کی فطرت، یا بہت ساری دیگر چیزیں شاید در حقیقت ممکنہ انسانی سائنس کے سکوپ سے باہر ہی پڑی رہیں۔

ایلڈرز: خوب، میرے خیال میں ہمیں پھر سے حدود و قیود اور آزادی کے مسئلے سے بِھڑنا پڑے گا۔ مسٹر فُوکو،کیا آپ حدود کے، اساسی حدود کے جوڑ جنتر کے اس بیان سے متفق ہیں؟

فوکو: یہ جوڑ جنتر کا مسئلہ نہیں ہے۔ خَلّاقی صرف قواعد کے ایک نظام کا کھیل کھیلنے سے ہی ممکن ہے۔ یہ آزادی اور نظم کا آمیزہ نہیں ہے۔

میں شاید مسٹر چومسکی سے مکمل طور پر متفق نہیں ہوں جب وہ با قاعدگیوں کے اس اصول کی ایک طرح سے انسانی فطرت کے ذہن کے اندر جگہ بنا دیتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے، آیا انسانی ذہن ان قواعد سے مؤثَّر کام لیتا ہے، ٹھیک ہے، اور یہ سوال ہونے کی صورت میں بھی ٹھیک ہے، آیا مؤرّخ اور ماہرِ لسانیات اپنی باری آنے پر فکر کر سکتے ہیں۔

یہ کہنا بھی درست ہے کہ  ان قواعد کو ہمیں ان افراد کا سوچا اور کہا سمجھنے کی سہولت دینی چاہیے۔ مگر یہ کہنا کہ یہ با قاعدگیاں وجود کی شرائط کی طور پر انسانی ذہن اور اس کی فطرت سے مربوط ہیں میرے لیے ماننا مشکل ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اس نکتے سے پہنچنے سے پہلے  اور میں تفہیم کے بارے میں بات کر رہا ہوں کسی کو اس تفہیم کو دیگر انسانی افعال جیسے معاشیات، ٹیکنالوجی، سیاسیات، سوشیالوجی کے شعبے میں ضرور تبدیل کرنا چاہیے جو (شعبہ) ان افعال کی تشکیل کی شرائط، ماڈلوں، جگہ اور ہیولے وغیرہ کے طور پر کام دے سکے۔

میں یہ جاننا چاہوں گا کہ کیا کوئی با قاعدگی اور پا بندی کا کوئی ایسا نظام جو سائنس کو ممکن بناتا ہے کہیں اور، انسانی ذہن سے بھی پرے، سماجی شکلوں میں، پیداواری رشتوں میں کلاس کی کشا کش وغیرہ میں دریافت نہیں کر سکتا۔

مثلاً، پاگل پن ایک خاص زمانے میں سائنسی مطالعے اور مغرب میں علوم کا حصہ بن گیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ حقیقت ایک خاص معاشی اور سماجی صورتِ حال سے جڑی ہوئی ہے۔

شاید میرے اور مسٹر چومسکی کے ما بین نقطۂِ اختلاف یہ ہے کہ  وہ جب سائنس کی بات کرتے ہیں تو شاید وہ علم کی تشکیلی تنظیم کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں جب کہ میں علم بَہ ذاتِ خود کی بات کر رہا ہوں۔ میرا مطلب ہے میں مختلف علوم کے مواد کی بات کر رہا ہوں جو ایک خاص معاشرے میں پھیلا ہوا ہے، اس میں سرایت کر چکا ہے اور افعال، نظریات اور تعلیم کی اساس کے طور پر اپنے اظہار پر مُصر ہے۔

جاری ہے …