ہندو مائتھالوجی میں عورت کا حسن

ہندو مائتھالوجی میں عورت کا حسن

از، ڈاکٹر کوثر محمود

ہندو مائتھا لوجی سے جو کامل ترین عورت کا مثالیہ بنایا جا سکتا ہے۔ اُس میں لا محالہ اوشا، سیتا، پاربتی، دروپدی، شکنتلا اور دمینتی کا تذکرہ لازماً آئے گا۔ اس پہلو پر ایک اجمالی نظر ڈالنے کے لیے مندرجہ ذیل عنوانات مناسب رہیں گے۔

۱۔ ویدک ادب کی دیویاں ۔۔۔ اوشا یا اُشس

رِگ وید دُنیا کی قدیم ترین (موجود) مذہبی کتاب ہے جسے ہندوؤں میں مقدس سمجھا جاتا ہے علاوہ ازیں ہندوؤں میں۴وید بالترتیب رِگ وید، یجروید، سام وید اور اتھروید دو طویل رزمیہ نظمیں ’’رامائن‘‘ اور ’’مہا بھارت‘‘ اپنشد (ویدوں کی تفاسیر) اور اٹھارہ ۱۸ پُر ان (پرانی روایتوں کے مجموعے) ہندو اعتقادات، دیومالائی کرداروں اور ادبی شاہ پاروں کے مأخذ ہیں۔
تاریخی اعتبار سے چاروں وید۱۵۰۰ق م تا۷۰۰ ق م کی تصانیف ہیں ۔ رگ وید میں ۱۰۲۸ بھجن ہیں ۔ رِگ وید میں مندرجہ ذیل دیویوں کا ذکر ملتا ہے :
۱ : پرتھوی ۔۔۔ جو زمین کی مبہم اور بہت کم ذکر کی جانے والی تجسیم ہے۔
۲ : آدتی ۔۔۔ (بمعنی لامحدود) جو دیوتاؤں کی پر اسرار اور نازک سی ماں ہے۔
۳ : اوشا /اُشس ۔۔۔صبح کی دیوی
۴: راتڑی ۔۔۔ رات کی دیوی ۔۔۔ روحِ شب
۵ : اُرن یانی ۔۔۔جنگلات کی دیوی
۶: اندرانی ۔۔۔ اندرا دیوتا کی بیوی اور تمام اناث میں سب سے زیادہ خوش قسمت ہے کیونکہ اُس کا شوہر کبھی بوڑھا ہو کر نہیں مرے گا۔
مندرجہ بالا ویدک دیویوں میں سے اوشا اس لحاظ سے اہم ہے کہ سب سے زیادہ بھجن یعنی ۱۰۲۸میں سے۲۰ بھجن اوشا کی شان میں بیان ہوئے ہیں علاوہ ازیں باقی تمام مذکورہ دیویوں کے جسمانی خدوخال کی کوئی واضح تفصیل نہیں ملتی لیکن اوشا کا سراپا ویدوں کے شاعر یوں کھینچتے ہیں۔
’’ اوشا ایک حسین دوشیزہ کی مانند (ہے) جسے اُس کی ماں کبھی ہیرے جواہرات سے سجا کرچنچل رقاصہ کے روپ میں پیش کرتی ہے اور کبھی زرق برق لباس عروسی زیبِ تن کر کر خاوند کے روبرو آنے والے لجاتی شرماتی دلہن کی صورت میں لاتی ہے اور کبھی ایسی نوخیز جواں سال لڑکی کی شکل میں سامنے لاتی ہے جو ابھی ابھی نہا دھو کر غسل خانہ سے باہر آتی ہے۔ وہ مسکراہٹیں بکھیرتی، نازو انداز سے گرویدہ بناتی ۔ چشمِ تماشا کے سامنے اپنا سینہ کھول دیتی ہے۔‘‘
ہندو دیو مالا میں برہما، وشنو اور شِو دیوتاؤں کی تثلیث کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اسی حوالے سے:
برہما کی بیوی ۔۔۔ سرسوتی دیوی
وشنو کی بیوی ۔۔۔ لکشمی دیوی
اور شِوکی بیوی ۔۔۔ پاربتی /پاروتی ….
کے خدوخال سے آگاہی ہندوستانی عورت کے مثالیے کی تفہیم کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

سَرسْوَتی ۔۔۔علم و ادب کی دیوی
سرسوتی کے معنی ہیں ’’پانی سے معمور ، پُرنم، خوش وضع ، شستہ و پاکیزہ ‘‘ ۔ ایسے شخص کو بھی سرسوتی کہتے ہیں جو کثیر علوم، الفاظ کے معانی ، اُن کے صحیح علم اور اُن کے باہمی ربط سے آگاہ ہو۔

سَرسْوَتی کا سراپا
تصویروں اور مجسموں میں اسے ایک خوبصورت اور گورے رنگ کی نوجوان عورت کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔ عموماً اس کے چارہاتھ دکھائے جاتے ہیں ۔ اُس کے ایک ہاتھ میں (ناریل) کے پتوں کی بنی کتاب ، دوسرے میں ایک پھول تیسرے میں ایک مالا اور چوتھے میں ایک چھوٹا ڈمرو (ڈگڈگی) دکھایا جاتا ہے۔کبھی کبھی اُس کے صرف دو ہاتھ دکھائے جاتے ہیں اُس صورت میں سرسوتی بیٹھ کر وینا/ ستار بجا رہی ہوتی ہے۔
’’ وہ بہت ہی صاحبِ جمال ہے۔ کنول پھول کی طرح چٹی سفید ہے۔ اعضاء انتہائی متناسب اور دل میں کھب جانے والے ہیں۔ بدن پر فالتو گوشت نام کو نہیں ، چھر یری اور نازک بدن ہے۔ باحیا اور باعصمت ہے اُس کے ماتھے پر پتلا سا چاند (جھومر؟) سجا ہوتاہے اور کنول پر بیٹھی رہتی ہے۔ *۲۰

لکشمی ۔۔۔ اسطورۂ پیدائش ۔۔۔ سراپا

’’ رگ وید میں لکشمی کا ذکر دیوی کی حیثیت سے تو نہیں ملتا لیکن یہ لفظ یعنی لکشمی خوش بختی کے معنوں میں ضرور آیا ہے۔ اتھروید میں خوش بختی کا تصور خوش قسمت عورتوں سے وابستہ کیا گیاہے ۔‘‘آج پورے ہندوستان میں لکشمی کے لفظ کو مال و دولت کا مترادف سمجھا جاتا ہے اور اسی اسطورہ کے زیرِ اثر ہمارے ہاں بھی بیوی کی آمد اور بیٹی کی پیدائش کو دولت کی افزائش اور ثروت مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

لکشمی کی پیدائش کی کہانی

’’ ایک دن برہما دیوتا نے وشنود یوتا سے اُس کے آسمان ویکنٹھ(یابیکنٹھ) پر جا کر کسی مسئلے کے بارے میں ملاقات کی ۔ اُس بات چیت میں شریک ہونے کے لیے شِودیوتا کو بھی وہیں بُلا لیا گیا۔ یہ تینوں دیوتا کچھ دیر بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے رہے پھر وہ ایک دوسرے کو تکنے لگے ۔جب اُن کی نظر یں ملیں تو اُن تینوں کی روشن نگاہوں سے ایک ملکوتی حسن والی دوشیزہ وجود میں آئی۔ اُس کا رنگ پہلے کنول کی پتیوں جیسا لاجوردی تھا۔ اُس کے بدن پر ہیرے جواہرات سجے ہوئے تھے۔ یہ نسوانی شبیہہ اس قدر تاباں و درخشندہ تھی کہ اُس کی روشنی سے سارے آسمان منّور ہو گئے۔ اُس درخشاں دوشیزہ نے جھک کر برہما، وشنو اور شو کو تعظیم دی۔ ان تینوں دیوتاؤں نے اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اور اُس کے تین رنگ سفید، سُرخ اور سیاہ کیوں ہیں؟ وہ بولی:
’’ میں تمہاری نظروں سے پیدا ہوئی ہوں ۔ کیا تم اپنی قدرتِ کاملہ سے واقف نہیں ہو؟‘‘
برہما نے اُس کی ستائش کرتے ہوئے کہا،
’’تجھے تین زمانوں ( ماضی ، حال اور مستقبل ، کی دیوی کہا جائے گا تو کائنات کی محافظ ہوگی اور تجھے مختلف ناموں سے پوجا جائے گا۔‘‘
اُس نسوانی وجود کے تین رنگ تھے (سفید ، سرخ اورسیاہ) اور تینوں دیوتا اُسے حاصل کرنے پر تُل گئے لیکن برہما کے کہنے پر اُس دیوی نے خود کو سفید ، سرخ اور سیاہ رنگ کی دیویوں میں تقسیم کر لیا سفید رنگ کی دیوی سرسوتی کہلائی اور برہما کی بیوی بنی اور سُرخ رنگ کی دیوی کو لکشمی کا نام ملا اور وشنوکی بیوی بنی اور سیاہ رنگ کی دیوی پاروتی یا پاربتی کہلائی اور شِو کے حصے میں آئی‘‘۔ پاروتی کا رنگ کالے سے سُنہرا کیسے ہوا اس کا ذکر آگے آئے گا۔ ان دیویوں کو مذکورہ دیوتاؤں کی شکتی یعنی طاقت کیا گیا۔

سمندر منتھن

رامائن کی ایک روایت کے مطابق لکشمی دودھ کے سمندر کے بلونے (سمندرمنتھن) سے پیدا ہوئی۔مختلف دیوتاؤں اور اسورہ (بھوت پریت جنّ وغیرہ) نے ابدی زندگی حاصل کرنے کے لیے امرت کو حاصل کرنا چاہا۔ اُنہوں نے وشنو کے مشورے پر مختلف جڑی بوٹیوں اور پودوں کو دودھ کے سمندر میں ڈال دیا اور مندرا نامی پہاڑ کو اُس دودھ کے سمندر (کیسر ساگر ) کو بلونے کے لیے بطورِ مدھانی اور باشک ناگ کو بطور نیترا (مدھانی چلانے والی رسی) کے استعمال کیا اور کئی برسوں تک اُس سمندر کو بلوتے رہے۔پھر اُس سمندر سے ۱۴نایاب قسم کی اشیاء برآمد ہوئی جن میں امرت کے علاوہ لکشمی بھی تھی۔
جب دودھ کے سمندر کو بلویا جا رہا تھا تو اُس کی سطح پر بالائی آگئی اور ان بالائی کی لہروں پر بہتی، کنول کا پھول ہاتھ میں تھامے، انتہائی رعنائیوں اور جمال آفرنیوں کا مرقع بنی لکشمی برآمد ہوئی۔وشنو پُران (ہندوؤں کی ایک قدیم کتاب) میں یوں مذکور ہے،
’’ پھر اُس کے بعد ظاہر ہوئی
حسن کی رخشاں و تابناک دیوی
بے نظیرو بے مثال’ سری‘
کنول کے پھول میں بیٹھی ہوئی ،
لہروں کی سطح پر کھلتے ہوئے پھول میں
اور اُس کے ساتھ ، سفید لباس پہنے
دھن و نتری برآمد ہوا
دیوتاؤں کا معالج
ہاتھوں میں امرت کا پیالہ لیے
دیوتاؤں اور غیر دیوتاؤں کے دل کی آرزو!‘‘

لکشمی کا سراپا
’’محبت بھری آنکھوں والی حسین دوشیزہ ( لکشمی) اپنے کنول پر بہتی ہوئی نمودار ہوئی
اُس کی آنکھیں سیال راستے پر بار بار پڑ رہی تھیں وہ مجسم حسن و وقار ، موتی
جیسی آب و تاب اور سنہری چمک سے دمک رہی تھی ۔
اُس کی سُنہری روشنی سے سیاہ سمندر منور ہو رہا تھا۔اُس کی سخت چھاتیوں کا
ابھار مسحور کن تھا۔
گول بازوؤں پر ہیرے جگمگا رہے تھے
ہموار پیشانی پر مکٹ (تاج) تھا
اُس کے تاج کے نیچے کھلے بال نیچے کو لہرا رہے تھے
بے بہا موتی گردن کی زینت تھے
وہ اُجالے ہوئے سونے کی مانند جگمگا رہی تھی
کنول کے نیلے پھول کی سہانی خوشبو سونگھتی ،
بالائی کی شیریں لہروں پر
’پدمالا‘ (لکشمی کا ایک اور نام) شان سے آئی زمین پر آئی اور کنول سے نکل کراشتیاق کے عالم میں
وشنو سے ہم آغوش ہو گئی۔

رامائن کے مندرجہ بالا اشلوک کا ایک اور ترجمہ ملاحظہ فرمائیں

’’ جب بہت سال گزر گئے
اپنے کنول کے پھو ل کے بستر پر استراحت میں تیرتی ہوئی آئی
ایک حسین و جمیل دوشیزہ
آہو چشم ، جادو نگاہ
غرورِ حسن شباب کی رنگینیوں سے ٹپک رہا تھا
سونے، ہیرے جواہرات اور موتیوں کی کی آب وتاب کے ساتھ!
شان و شوکت کی مُہر لگی ہوئی تھی اُس کی شہزاد گی پر ؛گول سڈول بازوؤں پر
دُرو گور چمک رہے تھے۔
ہموار تیکھے ابروؤں پر سنہری تاج
زلفِ عنبریں اس تاج کے نیچے لہراتی
کمر تک پہنچ رہی تھی
گلے میں بیش قیمت موتیوں کی مالا
دوشیزہ کا چہر اُس طرح رخشاں و تاباں
جس طرح کٹھالی سے نکلا ہوا کندن
دیوتاؤں کی ملکہ! اُس نے زمین پر قدم رکھا
کنول کا ایک پھول اُس کے ہاتھ میں تھا
بے عیب و حسین و جمیل ہاتھ!
بڑے اشتیاق سے کنول سے اُبھری ہوئی
یہ دیوی کنول کا پھول ہاتھ میں
لیے وشنو کے سینے سے چمٹ گئی
اُوپر دیوتا اور نیچے انسان
سب اُسے ملکۂ حسن اور ملکۂ اقبال و خوش بختی و
دولت مندی کے نام
سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔‘‘

تصویروں میں اس دیوی کو چمک دار شوخ سنہری رنگ میں ایک کنول کے پھول میں بیٹھی دکھایا جاتا ہے ۔* ۲۴لکشمی نے کئی جنم لیے ۔ ’’جب وشنو ،و امن (بونے ) کی شکل میں ظاہر ہوا تو لکشمی کنول کے ایک پھول سے پیدا ہوئی۔ اِس نسائی اوتار کا نام’ پدما‘یا’ کملا‘ تھا۔ جب وشنو بھِرگُویا پر سورام کی نسل میں راما کی حیثیت سے پیدا ہوا تو لکشمی اُس کے ساتھ ’’دھرانی‘‘ نامی خاتون کی شکل میں آئی۔ جب وشنود دیوتا نے رام چندر کی شکل میں ساتواں جنم لیا تو لکشمی سیتا کے روپ میں آئی اور رام کی بیوی بنی۔ اس طرح جب وشنو کرشن کی صورت میں آٹھواں اوتار بن کر ظاہر ہوا تو لکشمی نے بیک وقت دو جنم لیئے یعنی لکشمی رُکمنی (Rukmini) کی حیثیت سے کرشن کی بیوی تھی اور رادھا کی صورت میں اُس کی محبوبہ بن کر اُس کے ساتھ رہی۔‘‘
جو قارئین اس طویل تمہید سے گھبرا رہے ہیں اُن کے لیے عرض ہے کہ منیرؔ نیازی کی شاعری کی معنویت اور تہہ دار ی ان تفصیلات سے عدم واقفیت پر پوری طرح نہیں کھلتی؛ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں لکشمی کے مختلف زمانوں میں مختلف شکلوں میں جنم لینے کو پسِ منظر میں رکھتے ہوئے منیر نیازی کی یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں؛

’’خوبصورت عورتیں
کھڑکیوں جھروکوں میں
گُل ہوا کے جھونکوں میں
بن سنور کے بیٹھی ہیں
مختلف زمانوں میں
تن بدلنے جاتی ہیں
تن بدل کے آتی ہیں
اور بیٹھ جاتی ہیں
کھڑکیوں جھروکوں کے
دلنواز دھوکوں میں‘‘

لکشمی کے مزید اوصاف
لکشمی بے حد حسین ہے۔ بدن کا رنگ سُرخ ہے لہراتی برق کی مانند ہر وقت جگمگاتی رہتی ہے۔ اُس کے بدن سے پھوٹنے والی خوشبو آٹھ آٹھ سو میل کے فاصلے تک بسی رہتی ہے۔ اُس کی آب و تاب ایسی ہے کہ آج تک کسی ہیرے کو بھی ایسی چمک دمک نصیب نہیں ہوئی۔ جب وہ مسکراتی ہے یا شرماتی ہے تو ساری دنیا روشن ہو جاتی ہے۔*۲۷
لکشمی اپنے شوہر کی مکمل طور پر وفادار ہے غالباً اسی (پہلو کو نمایاں کرنے کے) لیے اُسے شیش ناگ کی کنڈلیوں پر شوہر کے قدموں میں بیٹھا ہوادکھایا جاتا ہے اور وہ محبت اور عبودیت کیساتھ اُس کے پاؤں سہلارہی ہوتی ہے۔ کبھی وہ شوہر کے ساتھ کنول کے پھول پر بیٹھی دکھائی دیتی ہے اور کبھی’ گرو دا‘نامی پرندے پر سواری کر رہی ہوتی ہے۔ لکشمی کی علامت کے طور پر اناج کی ٹوکری بھی بنائی جاتی ہے جس میں چھلکے سمیت چاول ( دھان) بھرے ہوتے ہیں۔

اشٹالکشمی

لکشمی دیوی کی اشٹالکشمی کے نام سے۸(آٹھ) ذیلی دیویوں میں تقسیم کی گئی ہے۔
رامائن کی ہیروئن ۔۔۔ سیتا
شوہر سے محبت کرنے والی ، دُکھ ،سُکھ ہر حال میں شوہر کا ساتھ نبھانے والی اور نسوانی حُسن کا حسین مرقع ،ستیا کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔’سیت‘ زمین میں ہل چلانے سے پیدا ہونے والے شگاف کو کہتے ہیں چونکہ سیتا کی پیدائش زمین سے ہوئی تھی لہذا اُس کا نام سیتا یعنی زمین کی بیٹی پڑ گیا۔سیتا کا ایک اور نام ’’ایونی ‘‘ بھی ہے جس کا مطلب ہے وہ عورت جو کسی کی کوکھ سے نہ پیدا ہوئی ہو جاتی ہے۔ سیتا وشنو کے ساتویں اوتار رام چندر کی بیوی تھی۔ سیتا اور رام کی کہانی ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’رامائن‘‘ میں شاعر والمیکی نے بڑے سبھاؤ اور رچاؤ کے ساتھ نظم کی ہے۔
یہ طویل نظم ۲۴۰۰۰(چوبیس ہزار ) اشعار پر مشتمل سات جلدوں میں تصنیف کی گئی۔ ان سات جلدوں کی تفصیل یہ ہے؛

۱: بال کانڈ ۷۷ابواب
۲: ایودھیا کانڈ ۱۱۹ابواب
۳: آریانہ کانڈ ۷۵ابواب
۴: کش کنڈا کانڈ ۶۷ابواب
۵: سندر کانڈ ۶۸ابواب
۶: یدھ کانڈ ۱۳۱ابواب
7: اُتر کانڈ (یہ بعد کا اضافہ ہے)
رامائن کا مکمل ترجمہ رالف ٹی ایچ گرفتھ نے (۱۸۷۰ء -۱۸۷۴ء)میں بڑی محنت اور کمال خوبصورتی سے کیا۔ شری دیسی راجو ، ہنومانتا راؤ، شری کرشنا مورتی اور اُن کے معاونین (درگانا گادیوی ، واشود یو کشور ، دیس راجو کماری، کمار ی راجیشوری) نے رامائن کے اجزاء کا انگریزی ترجمہ مختلف نسخوں کے مقابلے سے کیا۔

رامائن۔۔۔ سیتا را م کی کہانی کا خلاصہ
رامائن رام اور سیتا کی کہانی ہے اور تقریباً۷۵۰تا۵۰۰قبل مسیح کے شاعر و المیکی نے اسے تصنیف کیا۔ رام آج سے آٹھ لاکھ اسی ہزار سال قبل کے بادشاہ دسرتھ کا بیٹا تھا۔اُس کی بیوی سیتا لکشمی کا اوتار تھی اور رام بذاتِ خود وشنودیوتا کا ساتواں اوتار تھا۔بڑا بیٹا ہونے کے ناطے باپ کے تخت کا وارث تھا لیکن سوتیلی ماں کی ضد کی وجہ سے اُسے اپنے سوتیلے بھائی بھرت کے حق میں دست بردار ہونا پڑا۔ رام نے اپنی بیوی سیتا کے ہمراہ جنگل کی راہ لی اور اُس کا سگا بھائی لکشمن بھی اُن کے ساتھ ہولیا۔
رام نے جنگل میں۱۴سال کا بن باس گزارا (اسی لیئے عمر قید میں۱۴سال کی سزا دی جاتی ہے) اسی دوران رام کا باپ چل بسا اور سوتیلے بھائی نے رام سے واپس چل کر تخت و تاج سنبھالنے کی درخواست کی لیکن رام نے کہا کہ وہ باپ سے کیا گیا وعدہ ( یعنی ۱۴سال کا بن باس) پورا کرے گا۔پھر بھرت نے رام نے جوتے لیے اور انہیں تخت پر رکھا اور خود قائم مقام بادشاہ بن گیا۔ جنگل میں قیام کے دوران سری لنکا کے بادشاہ راون کی بہن سورپ نکھا پہلے رام پر پھر لکشمن پر عاشق ہو گئی ۔ رام نے اُسے دھتکار دیا اور لکشمن نے اُس کی ناک کاٹ لی راون نے بدلہ لینے کے لیے حیلے سے سیتا کو اغوا کر لیا رام نے سیتا کو لکشمن اور بندروں کے سردار ہنومان کی مدد سے سیتا کو بازیاب کرالیا اور راون کو قتل کر دیا سیتا کو راون کی قید سے چھڑانے کے بعد رام نے بڑی سرد مہری سے سیتا کو کہا کہ اُس نے (رام نے )صرف اپنی عزت پر لگے داغ کو دھونے کے لیے یہ جنگ کی ہے اور اُسے سیتا سے اب کوئی دلچسپی نہیں۔
سیتا اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آگ میں کود گئی دیوتاؤں نے سیتا کو بچا لیا اور رام نے اعلان کیا کہ اُسے سیتا کی بے گناہی کا یقین تھا لیکن لوگوں کو یقین دلانے کے لیے اُس نے سیتا کو آگ میں کود جانے کو کہا۔
رام اورسیتا دس ہزار سال تک ہنسی خوشی رہے لیکن رعایا کے دلوں میں اپنی ملکہ کے بارے میں پھر شکوک و شبہات پیدا ہونے شروع ہوئے۔ یہ بات رام کو معلوم ہوئی تو اُس نے سیتا کو جنگل بھیج دیاجہاں اُس نے دو جڑواں بیٹوں لاہو اور کشن کو جنم دیا۔(بعد ازاں کہا جاتا ہے کہ لاہو کے نام پر شہر لاہور اور کشن کے نام پر شہر کشور (قصور) آباد کیا گیا۔)
جب دونوں جڑواں بیٹے رام کے دربار میں پہنچے تو رام کو اپنی نا انصافی کا خیال آیا اور اُس نے سیتا کو بلوا بھیجا لیکن سیتا کو کہا کہ وہ سرِ دربار اپنی بے گناہی کا اقرار کرے۔سیتا نے اسے اپنی توہین جانا اور زمین کو آواز دی (کیونکہ وہ زمین سے پیدا ہوئی تھی۔ اور زمین اُس کی ماں تھی۔ سیتا کا لفظی مطلب وہ شگاف ہے جو زمین میں ہل چلانے سے پیدا ہوتا ہے) زمین شق ہو گئی اور سیتا اُس میں سما گئی۔
رام کا دل بھی زندگی سے بیزار ہو گیا اور وقت نے آکر اسے اطلاع دی کہ اُس کی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں رام مقدس ندی کے کنار چلا گیا اور اپنا جسم اُس کے حوالے کر کے اپنے بہشتی گھر کی طرف روانا ہوگیا۔

سیتا کے حسن و جمال کا بیان
رامائن میں سیتا کا تفصیلی پیکر دو مقامات پر بیان ہوا ہے اول اُس وقت جب سیتا راون کی دسترس میں آتی ہے اور راون اُسے حاصل کرنے کے لیے اُس کے جسمانی اوصاف کی تعریف کرتا ہے، دوم جب ہنومان (بندر دیوتا) لنکا پہنچا کر ایک باغ میں سیتا کو اشوک کے درخت کے نیچے دیکھتا ہے۔ راون کے بیان میں محض جسمانی اوصاف اور جنس کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے جبکہ ہنومان سیتا کو تقدس کی نظر سے دیکھتا ہے۔والمیکی سندر کانڈ (رامائن کی پانچویں کتاب) میں ہنومان کی زبانی سیتا کے بارے میں کہتا ہے؛
’’اُس (سیتا) کے گندھے ہوئے بال کمر پر سانپ کی طرح لہرا رہے تھے (5:15-25)
اُس کی آنکھیں بڑی بڑی اور کشادہ تھیں (5:15-26)
اُس کا چہرہ ماہِ تمام کی طرح ( روشن ) تھا اور بھنویں خوبصورت تھیں اُس کی چھاتیاں مرتعش مدور اور باوقار تھیں۔
وہ اپنے حسن کی ضیا سے ہر سمت پھیلے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کر رہی تھی۔
اُس کے ہونٹ بمبا *۳۱کے پھل کی طرح آتشی سُرخ تھے (5:15-28/29)
اُس کی بھنویں سیاہ اور ترچھی تھیں (5:15-36)
اُس کی آنکھیں سیاہ تھیں (5:16:5) *۳۲
جب راون سیتا کے قریب آتا ہے تو سیتا تھر تھر کانپنے لگتی ہے اور اپنے پیٹ اور چھاتیوں کو زانوؤں میں چھپا کر زمین پر بیٹھ جاتی ہے ۔ راون سیتا کا خوف کم کرنے کیلئے اور اُس کا دل جیتنے کے لیے اُسکی یوں تعریف کرتاہے۔
’’تمہارے زانو ہاتھی کی سونڈ کی طرح لچکیلے اور مضبوط ہیں کہ جن سے تم اپنا پیٹ اور اپنی چھاتیاں چھپا رہی ہو (15:20)
او بڑی بڑی آنکھوں والی ! تمہیں وہ تمام جسمانی رعنائیاں عطا کی گئی ہیں کہ جن کو دیکھنے سے تمام لو گ مسرت حاصل کرتے ہیں (5:20-3)
تمہارا چہرہ چاندی کی طرح (روشن /حسین) ہے، تمہارے کولھے وافر ہیں میری آنکھیں تمہارے بازوؤں اور تمہاری رانوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں (5:20-15)
اوشر میلی ! تمہارا چہرہ بہترین ہے (5:20-23)
او خوبصورت مسکراہٹ والی! تمہارے دانت ہموار اور خوبصورت ہیں، تمہاری آنکھیں جادو کرنے والی ہیں (5:20-29) * ۳۳

پاروتی /پاربتی
(ملکوتی جمال گناہوں کی ترغیب کبھی نہیں دیتا ۔۔۔ایک شوخ نو عمر برہمن )
پاربتی کا لفظی مطلب ہے پربت کی بیٹی ، دخترِ کوہسار یا ہمالیہ کی بیٹی۔ اُس کا ایک اور نام اوما بھی ہے ۔ وہ شو کی بیوی ہے اور کوہِ شوالک کے سلسلے میں پربت /کیلاش میں رہتی ہے۔ ویسے تو تمام دیویاں سفید رنگت کی ہیں لیکن پاربتی کا رنگ پہلے کالا(سانولا) تھا۔ ایک مرتبہ اُس کے خاوند شود دیوتا نے اُسے کالی رنگت کا طعنہ دیا تو وہ روٹھ کر جنگلوں میں چلی گئی۔ وہاں اُس نے سخت ریاضتیں کیں تو برہما نے خوش ہو کر اُس کی رنگت کو سنہرا کر دیا لیے اُس کا ایک نام گوری بھی ہے (جسکا لفظی مطلب ہے سنہرے جسم والی)۔پاربتی کا سراپا ویدک شاعروں نے بڑی تفصیل اور رچاؤ سے کھینچاہے بلکہ اخیر ہی کر دی ہے؛
’’ نو خیز پاربتی کا خوش نما بدن ہر لحاظ سے متناسب تھا گویا کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویر (ہو) اُس کا جسم کنوار پن کی ہر کشش سے لبریز تھا جیسے آفتابی کرنوں میں کنول کھل جائے۔ چہرے سے انوار پاشی ہوتی تھی جیسے خود محبت کی شعائیں چھلکی پڑ رہی ہوں۔ وہ گنگناتی ندی کے کنارے لہراتے نوخیز اشجار اور شیرنی کی آن اور شان سے زیادہ خوبصورت تھی۔
نسیم سحری کے نرم رو بہاؤ میں اوما کا ملکوتی جمال یوں شگفتہ ہو جاتا تھا کہ کنو ل کا پھول بھی کبھی ایسی دلکشی سے نہ کھلنے پایا تھا۔ چلتی تو ضیاء بار پاؤں اور نور افشاں ناخنوں سے سبزے پر روشنیاں امڈ پڑتیں، ارغوانی رنگ جھلک مارنے لگتا۔ پاؤں اٹھاتی جہاں سے گزر جاتی ، اُجلے اُجلے نظر نواز کنول کھلتے چلے جاتے ، بہاریں پھوٹ پڑتیں۔ نزاکت اتنی کی ابھری ہوئی چھاتیوں کے بار سے ہی اُس کا بدن قدرے خم کھاجاتا۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی، گردن کو ہلکا سا خم دیے، نظریں ترچھی کیے یوں چلتی جیسے کوئی مغرور ہنس بڑی شان سے آبی لہروں کو چیرتا گزر جائے۔ اُما (پاربتی) نے اس طرح چلنا ہنسوں سے ہی سیکھا تھا اور اس کے بدلے میں ہنس اُس کے نازک ٹخنوں سے پازیب کی ابھرتی خوشگوار مترنم جھنکار سننے کے خواہش مند رہتے تھے ۔۔۔ کنول جیسی آنکھوں والی پاربتی کی چھاتیاں سفید اور سنہری تھیں اور سرِ پستان (سرکشیدہ) اُس کی جاذبِ نظر دونوں چھاتیا ں ایک دوسرے کو چومتی ہوئی پیوست ہو کر اوپر اٹھتی چلی گئیں تھیں، اس قدر بھر پور اور لبریز تھیں کہ ان دونوں کے درمیان نشیب میں کنول کا ایک ریشہ تک نہیں سماسکتا تھا۔ پوشاک کے اندر اُس کا بدن اتنا رخشندہ ( و درخشاں) تھا جیسے اُس نے جگمگاتے ہیروں کا کمر بند پہن رکھا ہو۔ اُس کی ملائم جلد کے نظر نواز نشیب یوں لگتے کہ جیسے محبت بھری ملاقاتوں کے لیے محفوظ مامون گوشے۔
اُس کی بانہیں سِرَس (پنجابی ۔ شریہنہ ) کے پھولوں سے بھی زیادہ نرم و نازک تھیں ۔۔۔۔۔۔ خوبصورت ترین شاخ پر کبھی بھی کھلنے والا خوبصورت ترین پھول اور بے بہا مرجان پر دھرا ہوا موتی بھی پاربتی کے گلرنگ لبوں کے رنگ میں رنگی ہوئی تابدار مسکراہٹ کا مقابلہ شاید ہی کرپاتا۔ مسکراتی تو اُس کی مسکراہٹ کی خیرگی اُس کے یاقوتی لبوں پر بکھر جاتی ۔ اُس کے دل فریب ہونٹ تانبے کی طرح سُرخ تھے اور تبسم موتی کی طرح سفید ، تبسم سفید اس لیے تھا کہ جب اُما (پاربتی) مسکرانے لگتی تو اُس کے سپید دانت نظر آنے لگتے ۔ پاربتی کی لمبی لمبی انگلیوں سے گلگوں تجلّی پھوٹتی تو نئے چاند کی کرنیں اورزیادہ زرد (پھیکی) پڑ جاتیں ۔۔۔۔۔۔ بولنے کا انداز ، لہجہ اتنا شیریں اور نایاب و بے مثال کہ کسی بھی کوئل کے گلے سے کبھی بھی ابھرنے والا نغمہ اُس کے سامنے کرخت اور بے سُراہی لگتا تھا ۔۔۔۔۔۔ لرزاں لرزاں نم نم نظریں جیسے ہوا میں لرزتا، ہلکورے لیتا نیلا کنول پانی میں بھیگ گیا ہو۔۔۔
اُس کی لانبی خم دار بھنووں کی دلکشی ایسی اچھوتی تھی جیسے کسی مصور نے برش سے سرمہ لگادیا ہو۔ اُس کی خمیدہ بھنووں کو دیکھ کر عشق کے دیوتا کام دیونے اپنی اپنی کمان ایک طرف پھینک دی اور اس (کمان) پر اِترانا بھول گیا ۔۔۔
دُنیا کے خالق نے پاربتی کا تحیّرز ا حُسن تخلیق کرتے وقت اُس کا انگ انگ انتہائی دلکش تناسب اور موزونیت کے ساتھ بنایا تھا۔اُس کا بدن یکسر بے داغ تھا۔ ہر نوخیز جاذبیت اکمل تھی۔ خالق نے حُسنِ کامل کو مجسم کر دیا تھا گویا خالق خود سارے حسن کو ایک سانچے میں ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘ * ۳۳الف
ایک اور مقام پر جب شود یوتا کام دیوتا (یونانی دیوتا کیوپڈ کا مترادف) کے تیروں سے گھائل ہو کر پاربتی کی طرف نظرِ التفات کرتا ہے تو اس مقام کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے،
’’اُما (پاربتی) سرتاپا بہار بنی چلی آ رہی تھی اُس نے موسمِ بہار میں کھلنے والے پھولوں کے گجرے ، ہار اور مکٹ سجا رکھے تھے۔ ان میں اَشوک ( نامی درخت )کے یاقوت سے بھی زیادہ سُرخ پھول پروئے گئے تھے۔ ان میں سنہری آب و تاب والے کَرنِکر کے پھول بھی تھے اور ان میں موتیوں جیسے سفید سندھور کے پھول بھی تھے جو اُس کی گردن میں یوں لپٹے ہوئے تھے جیسے انتہائی خوبصورت سفید موتیوں کی لڑیاں۔۔۔
اُس کے سینے کے ابھار کا وزن اتنا تھا کہ اُس کا نازک بدن چلنے کے دوران ذرا خم کھا گیا تھا۔ اُس نے آفتابِ صبح کے رنگ جیسی پوشاک پہن رکھی تھی۔ وہ یوں لگ رہی تھی جیسے نئے پتوں اور پھولوں کے گچھوں کے بوجھ سے لرزاں اور جھُکی ہوئی نازک سی بیل ، جیسے دلکش پھولوں سے لدا پھندا کوئی نازک درخت؛ اُس نے اپنی پتلی کمر پر وَکُل*۳۴ نامی پھولوں کی پیٹی باندھ رکھی تھی جو کمر سے بار بار پھسل کراُس کے کولھوں پر ڈھلک آتی تھی ۔۔۔ شہد کی ایک حریص مکھی اُما کے بمبا جیسے سرخ نچلے ہونٹ پر منڈلا رہی تھی۔ وہ خوشبو میں بسے اُس کے ہونٹ سے امرت پینا چاہتی تھی۔ اُما کی مشکبو سانس سے اُس مکھی کی پیاس اور بھی بڑھ گئی تھی۔ اما اُس سے سہم کر اپنی آنکھیں میچ میچ لیتی اور اپنے ہاتھ میں تھامے کنول کے پھول سے اُس (شہد کی مکھی) کو بھگانے کی کوشش کرتی ۔۔۔ اُس کا حسین بدن بے داغ تھا ۔۔۔
اُما (پاربتی) کے کالے بالوں میں کرنِکر کے تازہ پھول چمک رہے تھے۔ وہ احتراماً شو کے سامنے اتنی خم ہوئی کہ سر پر بالوں میں سجے پھول نیچے گر گئے۔۔۔
اُما کے سراپا سے شِو کے لئے بے پناہ محبت اُمڈ رہی تھی۔ بدن کے انگ انگ کی لرزش دبائے نہیں دب رہی تھی۔۔۔ سینے کا ارتعاش توجہ طلب تھا ۔ اُس کا ہر حسین عضو کَدمبا *۳۵کی ادھ کھلی کلیوں کی مانند لگ رہا تھا ۔۔۔ وہ شو کے سامنے نظریں نیچی کیے کھڑی تھی۔‘‘
۔۔۔وہ اتنی نازک تھی کہ سوتے میں اُس کے خوبصورت بالوں کے سجے ہوئے پھول بھی اگر اُس کے بے بہا اور مکلف بستر پر ادھر اُدھر منتشر ہو جاتے تو اُسے تکلیف ہوتی ۔۔۔
اُما کی نرمی اور ملائمت کی وجہ سے ننھے منے ہرن بھی اُس سے مانوس ہو گئے کہ ذرا نہ ڈرتے ۔ وہ روز اُس کے پاس آتے اور اُس کے محبت بھرے ہاتھوں سے خود رو جنگلی گھاس کی تازہ تازہ بالیں کھاتے وہ ان ہرنوں کے چہرے اپنے ہاتھوں میں تھام لیتی، اپنے گال اُن کے منہ سے ملا دیتی اور بڑے تجسس کے ساتھ اپنی آنکھوں سے موازنہ کرنے کے لیے سہیلیوں کو دکھاتی۔ اُس کی اپنی آنکھیں بھی اُتنی ہی ملائم اور روشن تھیں جتنی اُن کم سن ہرنوں کی تھیں ۔۔۔
’’ برف باری سے کنول کے پھول ختم ہو جاتے تھے مگر اُن کی کمی اُما سے پوری ہو جاتی تھی کہ اُس کا خوبصورت چہرہ کنول جیسا ہی تھا۔
اُما کے مہکتے سانس کنول کے اُن پھولوں کی طرح روح پرور تھے جو شام کے پرسکون لمحات میں بہترین نکہتیں بکھیرتے ہیں اُما کا نچلا ہونٹ کنول کے پتے کی طرح لرزاں رہتا تھا۔‘‘*۳۶
میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب منیر نیازی اپنے گھر ہوشیار پور سے کوہِ شوالک کی طرف دیکھتا ہوگا تو پاربتی کا تخیل یقیناًاُس کی شعری حسیات کو بیدار کرتا ہوگا اور اس بات کاثبوت جابجا اُس کی شاعری میں خوبصورت اسطوری حوالوں سے ملتا ہے۔
رامائن اور مہا بھارت کے دیگر نسوانی مثالیوں میں قابلِ ذکر دروپدی ، شکنتلا اور دمینتی وغیرہ ہیں اور اپسراؤں میں ارواسی ، منیکا ، رمبھا اور تلوتما مشہور ہیں لیکن اگر بہ نظرِ انصاف دیکھا جائے تو پاربتی کے سراپے کے مقابلے میں اُن کی حیثیت سورج کے مقابلے میں چراغ کی سی ہے نیز یہ کہ نہ صر ف عمومی باتوں کو دہرایا گیا ہے جیسے دروپدی میں جنسی کشش زیادہ تھی ۔ شکنتلا کی چولی روز تنگ ہو جاتی تھی، شہد کی مکھی اُس کے سرخ ہونٹوں کو پھول سمجھ کر بیٹھ جاتی تھی دمینتی کی کمر پتلی تھی بال کالے تھے وغیرہ وغیرہ علاوہ ازیں ان کرداروں کی سراپا نگاری نہایت مختصر کی گئی ہے۔

قدیمی صحیفوں کے مثالی نسوانی پیکروں کا اجمالی پرتو حقیقی مجسموں کی صورت میں کھاجوراؤ کے مندر اور اجنتا /ایلورا کی غاروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیویاں مجموعی طور پر کافی صحت مند ، سڈول ، بھری بھری اور جنسی کشش سے لبریز دکھائی دیتی ہیں ۔