کشمیر میں ساز و آواز کی سیاست

پروفیسر فتح محمد ملک

کشمیر میں ساز و آواز کی سیاست

از، پروفیسر فتح محمد ملک

مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل کو بھارت کی غلامی پر رضامند کرنے کی خاطرساز و آواز کی سیاست نے نئے گُل کھلانے شروع کر دیئے ہیں۔ اس نئی سیاسی حکمتِ عملی کاانتہائی تکلیف دہ رُخ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت بھی بھارت کے شانہ بشانہ اس ’’جہاد‘‘ میں دادِ شجاعت دینے میں مصروف ہے۔سری نگر کی جھیل ڈَل کے کنارے برپا رقصِ ابلیس کو، خاکم بدہن،جہاد کا نام میں نے نہیں دیا بلکہ پاکستان کے پاپ بینڈ سنگر سلمان احمد نے دیا ہے۔ موصوف نے بھارتی جریدہ Outlook سے گفتگو کے دوران اس محفلِ موسیقی کو ’’جہاد برائے اَمن ‘‘قرار دیا ہے۔

اُن کے نزدیک یہ میوزیکل کنسرٹ بندوق کی بجائے گٹار سے جہاد کرنے کا عمل ہے۔ہرچند اقبال ہمیں یہ تلقین کرتے نہیں تھکتے کہ:’’میدانِ جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ!‘‘ تاہم پاکستان کی نئی نسل کا نمائندہ پاپ بینڈ میدانِ جنگ میں نوائے چنگ کے جادو کو برحق قرار دیتا ہے۔ بھارت کے وزیر اور ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن کی بھارتی شاخ کے سربراہ مانی شنکر آیئرنے پاکستانی بینڈ ماسٹر سلمان احمد کی آواز میں اپنی آواز ملاتے ہوئے ہندوستان ٹائمز کو بتایا ہے کہ ’’کشمیر کے لوگ سیاست سے زیادہ رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔ہم نے اِس محفلِ رقص و سرود کا اہتمام کر کے ایک نئی حکمتِ عملی کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ دیکھیں اب اِس کی سمت و رفتار کو بڑھانے میں کون کون حصہ لیتا ہے۔‘‘ یہاں غالباًبھارتی وزیر مانی شنکر پاکستان کو ساز و آواز کی اِس سیاسی حکمتِ عملی کو مستحکم کرنے اور آگے بڑھانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
جھیل ڈَل کے کنارے برپا کی گئی اِس محفلِ رقص و سرود کوکشمیر یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر سٹڈیز کے قیام کے جشن کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے پاپ بینڈ جنون اور کینیڈا کے سنگھز گروپ کی اِس مشترکہ پیشکش کا اہتمام ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن اقوامِ متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے عمومی سفیر مدن جیت سنگھ نے قائم کی تھی۔ جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں اِس تنظیم کی شاخیں قائم ہیں۔ تماشائیوں میں سری لنکا کی سابق صدر چندریکا کمارا تُنگا اور افغان وزیر ایچ بی غضنفر بھی شامل تھے۔ یہ جزئیات اس محفلِ رقص و سرود کی سیاسی رمزیت اُجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں۔

متحدہ جہاد کونسل نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ سلمان احمدکے پاپ بینڈ پر پابندی عائد کی جائے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں رقص و مستی کی محفل میں شریک ہو کر پاکستان کی رُسوائی کا سبب نہ بنے مگر ہماری حکومت نے بھارتی حکومت سے نیک چلنی کا سرٹیفیکیٹ لینے کی خاطر متحدہ جہاد کونسل کی اِس اپیل کو سُنا اَن سُنا کر دیا۔حریت کانفرنس کے رہنما سیّد علی گیلانی نے پاپ موسیقی اوررقص و مستی کی اِس محفل کو کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارت کی کلچرل جارحیت قرار دیاہے۔ ایک عظیم جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اِس کلچرل جارحیت کے خدوخال پر یوں روشنی ڈالی ہے:

“India is using all resources at its command to promote waywardness, immorality and obscenity in the Valley. Every effort is made to pollute the minds of the youth in schools, colleges and University. Dance and music shows are organized at the educational institutions. In University, the people of a particular ideology and mind set are pushed forward to get the plans of cultural aggression executed. These people are taken to Israel to undergo a training to driveaway Muslim youth from their religion and culture…..The governor, a Hindu of a peculiar type, wants to promote Shivism rather than the message of Hazrat Mir Syed Ali Hamdani (RA). This is given the name of Kashmiriyat…..The governor is trying to “link back” the Islamic society of Kashmir with the 5000 year old Hindu and Buddhist Kashmir.”(The Nation, 2.6.08)

سیّد علی گیلانی کی تقریر کے درج بالا اقتباس کو پڑھتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ یا اللہ! سیّد علی گیلانی نے اوپر دی گئی عبارت میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی حکمتِ عملی کو بے نقاب کیا ہے یا ہم پاکستانیوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ پاکستانی کلچر کے ناخدا بھی نوجوانوں میں آوارگی اور اوباشی ، عریانی اور فحاشی ، تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کے نام پر اُچھل کود اور دھماچوکڑی کے کلچر کے فروغ میں کوشاں ہیں۔مساجد گرائی جا رہی ہیں مگر اُن مندروں کو نئی آب و تاب کے ساتھ تعمیر کیا جا رہا ہے جو قیامِ پاکستان سے صدیوں پہلے کھنڈر بن کر رہ گئے تھے۔ دینی مدارس چچا سام کے گماشتوں کے احتساب کی زد میں ہیں مگر بھوربن کے سے پُرفضا مقامات پر مہاتما بُدھ کی تعلیمات کی تبلیغ کی خاطر نئے ادارے وجود میں لائے جا رہے ہیں اور اِن اداروں کی قیادت کے لیے جاپان اور کوریا سے بُدھ بھکشو درآمد کیے جا رہے ہیں۔یوں پاکستا ن کی اسلامی شناخت کو تو دھندلایا جا رہا ہے مگربرصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی ہندو شناخت کواُجاگر کیا جا رہا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کلچرل جارحیت کا دور دورہ ہے تو ہم پاکستانی بھی کیا بھارت ہی کی کلچرل جارحیت کی زد میں ہیں؟

اِس سوال کو یہیں چھوڑتے ہیں اور اِس ستم ظریفی پر غور کرتے ہیں کہ آوارگی اور اوباشی کے اِس کلچر کو تصوف کے نام پر عام کیا جا رہا ہے ۔ رقص و موسیقی بلاشبہ روح کی غذا ہیں مگریہ بھی سچ ہے کہ رقص و موسیقی روحانی واردات سے کٹ کر رہ جانے کے بعدصرف جسمانی مستی اورتماش بینی کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔پاکستانی پاپ بینڈ ماسٹر سلمان احمد اپنی موسیقی کو صوفی میوزک کا نام دیتے ہیں۔ تصوف ایک روحانی واردات کا نام ہے جبکہ پاپ بینڈ جنوں کی موسیقی یہیں کہیں بدن کے پیچ و خم میں سرایت کر کے رہ جاتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کو روحانی اضطراب سے محروم کرنے کی خاطر ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن نے جس صوفی میوزک کا اہتمام کیا ہے اُس کا خیال کر کے مجھے اقبال کا شعری کردار مُلا زادہ ضیغم لولابی یاد آتا ہے۔اقبال نے اپنی شاعری کے دورِ آخر میں کشمیریوں کے نام اپنے انقلابی پیغام کو اِس شعری کردار کی زبانی کشمیریوں تک پہنچایا ہے۔اِس سلسلۂ منظومات میں اقبال دو طرح کے تصوف کا ذکر کرتے ہیں۔ محکوم کا تصوف اور آزاد کا تصوف :

اوّل: محکوم ہو سالک تو یہی اُس کا ’’ہمہ اوست‘‘
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگِ مفاجات
دوم: خود گیری و خود داری و گلبانگِ’’ انا الحق‘‘
آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اُس کے مقامات
*
گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
اے وادئ لولاب
*
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

گزشتہ بیس برس سے کشمیری حریت پسند اقبال کی اِس انقلابی صدا پر لبیک کہتے ہوئے خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ اِس داستانِ جہاد کے زریّں اوراق کو جھیل ڈَل کے پانیوں میں غرق کرنے کی خاطر ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن نے محکوموں کے تصوف کو رواج دینے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے مگر جب تک سیّد علی گیلانی کی آواز کا شعلہ کشمیری نوجوانوں کے سینوں میں حق کی خاطر کٹ مرنے کے الاؤ روشن کرتا رہے گا یہ سامراجی سیاسی حکمت عملی بے اثر رہے گی۔ اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے اسی کلچرل جارحیت کے تحت جب سری نگر کے واحد سینما ہال میں پاکستانی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ کی نمائش کی گئی تو فقط پندرہ افراد سینما ہال میں جمع کیے جا سکے۔ میں کشمیر میں بھارت کی کلچرل جارحیت کی اس ناکامی کو سیّد علی گیلانی کے شعلۂ آواز کا اعجاز سمجھتا ہوں اور اُس دن کا منتظر ہوں جب پاکستان کے سیاسی اُفق پر بھی سیّد علی گیلانی کی سی نظریاتی استقامت طلوع ہوگی۔