فطرت کی تعبیر ننھی آنکھوں کی بینائی سے

ایک روزن لکھاری
شکور رافع، صاحب مضمون

فطرت کی تعبیر ننھی آنکھوں کی بینائی سے

از، شکور رافع

رابعہ شکور کے ساتھ ایک علمی ڈیٹ

نو دس سالہ رابعہ شکور کے ساتھ چند دن ناران کاغان کی جھیلوں ،وادیوں اور پہاڑوں میں گزارے ۔باپ بیٹی کی اس سیاحتی روداد کے ضمن میں (اگرذاتی جمالیاتی تاثرات یا روایتی سماجی مشاہدات کے بجائے)… اظہار و ابلاغ کی سرشاری اور تجربہ و حیرت کی گلکاری پر جم کرلکھا جائے تو شاید ’پدرانہ سفرنامہ‘ ٹائپ صنف میں کچھ بن جائے مگربچوں کے ادب کے لیے ایسی مغزماری کے ہم قائل نہیں ۔
مان لیا! مگر ایسے متجسس اور معصوم ہمسفر کی معیت میں ملنے والی سرشار انفرادیت کا اعتراف ضروری ہے اور وہ ایسے کہ عمومی سفرنامہ میں سیاح اردگرد سے متاثر ہو کر لکھتا ہے جبکہ یہ مسافرمتاثر ہونے کے بجائے اپنے ننھے ہمسفر کو متاثر کرکے لکھتا ہے یعنی ایسی تحریر کا منبع مباحثہ اور مکالمہ کے دریا سے زیادہ اظہار اور ابلاغ کا پرسکون چشمہ ہے، سرچشمہ ہے!
یوں کہیے کہ یہ سفر ادھیڑ عمری اور لڑکپن میں داخل ہوتے دومختلف افراد کی حیرتوں کا ملاپ ہے کہ جس میں واضح رنگ یقینا تجربے کا تھا اور یہی ایک کامیاب اظہار ہے اور اظہار کا ابلاغ ہے بلکہ ایسے ابلاغ کا حُسن بھی کہ دل کی سچی بات بنا کسی حجت دلیل کے دوجے دل میں اترتے دیکھنا بھی توجبلی خواہش ہے!

گھرآنگن میں رہتے ہوئے آپ مذہبی کو مار بھی دیں اس مشرقی مرد کو نہیں مار سکتے کہ جو بچوں کی تربیت ایسے کرتا ہے ۔۔۔۔۔
’ دیکھو بیٹا یہ جس ماڈل کا اشتہاری رقص دیکھ دیکھ کر تم ابھی سے موٹاپے کی دشمن ہو چکی ،وہی فربہی بچپن کی ’صحت و حسن کا معیار‘ ہوتا ہے۔ ‘

اب اس وعظ میں ’صحت و حسن کا مختلف معیار‘ ایک نو سالہ بچے کے لیے پہیلی سے کم نہیں کہ طاقچوں درازوں میں مختلف گردشی ادویات دیکھتے رہنے سے وہ’ صحت‘ کا مفہوم توشاید سمجھتی ہومگریہ ’ حُسن ‘ کیا ہوتا ہے؟۔۔۔اسے بتانا ضروری ہے کہ ’حسن ‘ان ڈراموں، کارٹونوں ،آئیس کریم پر سجائے جانے والے چاکلیٹی ’ٹاپر‘ اور شاپنگ مالز کے مہنگے ’شاپر‘میں ہی نہیں ہوتا۔۔۔ مسکراہٹوں ،لفظوں، پرندوں، پہاڑوں، آبشاروں، وادیوں اور نغموں میں بھی ہوتا ہے!

وہ اس تشریحی وعظ پر جواب دیتی ہے کہ۔۔۔

شہر میں تو اشتہاروں، پکوانوں اور پلازوں وغیرہ میں ہی حسن دکھائی دیتا ہے۔ باقی رہ گئی مسکراہٹ ، پرندے اور پہاڑ شہاڑ۔۔ تو مسکراتے آپ کم ہی ہیں، پرندوں میں تو یہاں کوے چڑیاں ہی دکھتے ہیں ،وادیوں آبشاروں کا تو بس نام ہی سنا ہے اور پہاڑ۔۔۔ ہاہاہا ۔۔ مری کے پہاڑوں پر تو ہوٹل اور فلیٹس ہیں جن سے بہتے فضلہ آمیز پرنالے بالکل بھی حسین نہیں ہیں ۔۔

میں سمجھتا ہوں کہ اظہاروابلاغ کی ایسی کنفیوژن میں اخلاقی تقاضا یہی بنتا ہے کہ اسے یو ٹیوب (پر قدرتی و فطرتی مناظر کے سامنے اشتہا انگیز کمرشل ڈانس) دکھانے کے بجائے براہ راست کوہ و دمن دکھائے جائیں۔ سو میں چل پڑا۔۔۔۔

ناران تک کے پرپیچ پہاڑوں پر بھی جب رہائشی سکیموں اور گوری کریموں کے اشتہاری بورڈز میں مادیت پرست غلام ومادام رقصاں دکھائی دیں تو فرماتا ہوں

’بیٹا! حسن ان سے پرے، اوپر، یہاں نہیں ، وہاں ، جہاں چٹے سفید بادلوں کا رقص جاری ہے جو گاہے چوٹیوں پر سرسراتی برف سے اٹھکیلیاں کررہا ہے۔ اور وہ کچھ آگے جب پہاڑ مادرپدر آزاد ہوجاتے ہیں ،ہم سیف الملوک جھیل سے اوپر گلئیشیرز کے سامنے کھڑے ہو کر نیچے دیکھ رہے ہیں۔۔۔دیکھو تو دور تک پہاڑ کسی انسانی پرنالے کے بغیر صرف کوہ دکھائی دیتے ہیں یا دمن ۔ چراغ لالہ سے روشن یہ کوہ و دمن کہ جن کا پرنالہ صرف ٹھنڈا میٹھا کنہاری دریا ہے! وہ کہتی ہے کہ واقعی میں یہ سب منظر اس دنیا کا معلوم نہیں ہوتا۔
اب بتائیے۔ کیا میں حسن کی ایسی کتابی تشریح کا حقیقی تجربہ کسی محبوبہ یا دوست کے (ساتھ یا ) سامنے کر سکتا ہوں کہ محبوبہ کا آنچل بابوسرٹاپ پر شدید ٹھنڈی ہوا میں ڈھلک جائے تو موضوع کے ساتھ مزاج بھی بدل جاتا ہے۔ اور رہ گئے دوست! کچھ ان مناظر میں نور الہی تلاشتے ہیں اور کچھ قضائے الہی سے رقیب کو پیاری ہونے والی محبوبہ!

تو ایسا ہے کہ سیانوں کے ساتھ سفر کم و بیش مکر ہے یا پھر ایسا مکروفن کہ جہاں سب اپنے اپنے سودوزیاں کےتجربات سے گندھی اناؤں کو گھسا گھسا کر شگفتہ سے جمالیاتی وتاثراتی مکالمہ کو بھی مباہلہ بنا دیتے ہیں۔محبوبہ آپ کی بولتی بند کر دینے کی کوشش میں رہتی ہے اور آپ دوستوں کی ۔۔۔ مگر بلوغت کی حدوں کو چھوتی زیرکفالت نسل اگر ہمسفر ہو تو وہ بحث برائے بحث نہیں کرتی۔
یہ ضرور ہے کہ اس سطح کا مکالمہ کسی نئے بیانئے کا محرک نہیں بنتا۔ یہ نئے علمی افق پیدا نہیں کرتا تاہم یہ نئے مسافروں کو جمالیاتی افق سے تو شناسا کرتا ہے اور ضمناً آپ کی بے تکان بولنے کی خواہش کو بھی پورا کرتا ہے اور یہ بھی بڑی غنیمت ہے۔تویہ سفر ایک نوسالہ بیٹی کی اخلاقی سے زیادہ اس کی جمالیاتی تربیت کا منظرنامہ ہے۔ اسے آپ اصلاحی یا خالص تربیتی سفرگزاری بھی مت سمجھیے کہ گیارہ ہزار فیٹ کی بلندی پر لولوسر جھیل کے سبز پانیوں پر نگاہ پڑے تو بہت سے خوش بدن زاویے ہیچ معلوم پڑتے ہیں۔
یہ سفر جمالیاتی مسرت کے ساتھ مادی قناعت کی پرسہولت نعمت سے بھی روشناس کراتا ہے۔ سستے سے ہوٹل میں غائب مسلم شاور یا شیمپو، تولیہ، ڈریسنگ کے بغیر زندگی کے وجود اور ان سب کی عدم موجودگی کا بے نیازانہ حسن بھی سامنے آتا ہے کہ جہاں ترجیح اپنی خارجی آرائش نہیں ،داخلی آسائش و ستائش ٹھہرتی ہے۔

مستقلًا ایسا کرنا ممکن نہیں کہ چھٹیاں کم ملتی ہیں اور کچے چولہے کاکوئلہ دھواں کہیں مہمان جا کر ہی بھلا لگتا ہے تاہم زندگی کی یہ سادگی و پرکاری دیکھنا بھی ضروری ہے اور زیر کفالت ذی روحوں کو دکھانا بھی !

اس سارے مکالمے میں باپ ہونے کے ناتے میری گفتگو کا پلڑا بھاری رہتا ہے مگر ایک مقام پر لاجواب شکست مجھے ’فرار‘ اور ’سعی‘ میں صحیح فرق سکھاتی ہے کہ جب بابو سرٹاپ سے ہزاروں فٹ تلے حد نگاہ تک پھیلے پہاڑ اور انسانی نام و نشان سے ماورا وادیاں دکھائی دیتی ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ’جہاں تک نگاہ دوڑاؤ ۔۔ازلی سکون اور خاموشی ہے۔حضرت انسان کی کہیں کوئی جھلک تک نہیں

دکھائی دیتی…. کتنا حسین منظر ہے نا!‘
وہ اختلاف کرتی ہے اور کہتی ہے کہ

’انسان کے بغیر دور دور تک کی ویرانی سے دل گھبراتا ہے لالہ ۔اگر ایسا ہو کہ ان وادیوں میں انسان تو ہوں مگر شور اور جھگڑا نہ کریں اور چپس جوس کے ریپر نہ پھینکیں اور گالیاں نہ دیں تو کیا ایسا منظر زیادہ حسین نہیں ہو گا ۔‘
میں ازلی فرارپرست حسن کی مزید وضاحت کا خیال دل سے نکال کر ایسے انسان دوست کودل سے لگا لیتا ہوں۔