اردو ناول کی تخلیق ، تنقید اور حلقہ ارباب ذوق

کامران کاظمی

اردو ناول کی تخلیق ، تنقید اور حلقہ ارباب ذوق

از، کامران کاظمی

ناول مبصر حیات ہے۔ زندگی کے گونا گوں مناظر اور مظاہر، سماجی ماحول کے مسائل، معاشرتی حدود و قیود، تاریخی تناظر، سیاسی، ثقافتی اور تمدنی صورتحال گویا زندگی کی نوع  بہ نوع صورتیں ناول کا موضوع بنتی ہیں۔

زندگی درحقیقت بہت سی جزئیات کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے ناول کا فن بھی تفصیل، صراحت اور جزئیات نگاری کا فن ہے۔ ایک عمدہ ناول حیات و ممات کے گہرے ادراک اور شعور کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے ناول نگار کا مشاہدہ بل کہ نظریہ حیات ناول کی تشکیل میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

ناول محض زندگی کے اہم واقعات کا بیانیہ نہیں بل کہ ناول نگار کے تجربے اور مشاہدے یا زیادہ بہتر الفاظ میں عصری شعور سے اخذ کردہ زندگی کی ایسی حقیقی تصویر کا اظہار ہے جو خارج میں بھی محسوس کی جا سکے، اس طرح ناول زندگی کی تصویر محض نہیں رہتا بل کہ تفسیر حیات بن جاتا ہے۔

ناول جس زندگی کو اپنے موضوع کا حصہ بناتا ہے وہ زندگی ایک یا ایک سے زائد ادوار پر محیط ہو سکتی ہے۔ گویا ناول اپنے وسیع تناظر میں محض تہذیب و تمدن کو ہی نہیں بل کہ تاریخ کو بھی اپنا موضوع بنا لیتا ہے۔ اس لیے یہ امر طے ہے کہ دیگر اصناف ادب کے مقابلے میں ناول زیادہ بہتر طور پر اپنی عصریت کا اظہار کرتا ہے۔

البتہ یہ پہلو ذہن نشین رہے کہ ناول میں عصریت کے اظہار کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ناول تاریخ، فلسفہ، نفسیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات و سماجیات اور دیگر عمرانی علوم کا بدل ہے لیکن ناول کا پھیلاؤ اتنا وسیع ہے کہ اس میں یہ تمام علوم سما جاتے ہیں۔

عمرانی علوم اپنی مخصوص حدود و قیود کے باعث زندگی کے بطون کے بہت سے راز افشا نہیں کر سکتے۔ فقط ادب ایسا ذریعہ ہے اور با لخصوص ناول جو زندگی کی ہمہ رنگی کو پوری جزئیات کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔

ناول اپنے عصر کی بڑی حد تک مکمل تاریخ ہوتا ہے۔ اپنے موضوع عہد کی تصویر کشی ناول کا بنیادی مقصد ہے۔

گویا ناول میں اپنے موضوع عہد کے افکار و تصورات، رسوم و رواج، عادات و اطوار، تصور مذہب و زندگی سب سمانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ناول چوں کہ پوری حیات کا مظہر ہوتا ہے اس لیے ناول کی بنیاد اپنے عصر کے علمی و سماجی ماحول پر قائم ہوتی ہے۔ بڑا ناول ہمیشہ ایک بڑے اور وسعت کے حامل علمی ماحول میں تخلیق ہوتا ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حلقہ کا یہ بھی اختصاص رہا ہے کہ اس کا ماحول نہ صرف علمی و ادبی رہا ہے بلکہ حلقہ میں نئے علمی و فکری تصورات کو ہمیشہ خوش آمدید کہا گیا۔ یوں حلقہ نے ایک ایسے علمی ماحول کی تشکیل کی کوشش ضرور کی ہے جو تخلیق ناول کے لیے ضروری ہے۔

البتہ حلقہ ارباب ذوق کی زیادہ توجہ انتقادِ غزل، نظم، افسانہ اور دیگر نثری و شعری اصناف پر مرکوز رہی ہے، نقد ناول کا حصہ اس میں بوجوہ کم ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اردو میں کوئی ایسا بڑا ناول ابھی تک کیوں تخلیق نہیں ہو سکا جسے دنیا کے بڑے ناولوں کے ہم پَلّہ قرار دیا جاسکے۔ کیا ہمارے سماجی مسائل ایسے نہیں کہ وہ ناول کا موضوع بنیں یا ہمارا کوئی سماجی طرز عمل ایسا ہے کہ ہم ناول کے لیے درکار آزاد اور علمی فضا پیدا نہیں کرسکتے؟

ناخواندگی اور کمزور متوسط طبقہ بھی ایک وجہ ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے اچھے ناول کی تخلیق میں کچھ دیگر عوامل بھی ہوں جو ناول کا راستہ مسدود کیے بیٹھے ہوں۔ ناول نگار کی سہل پسندی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

تاہم حلقہ ارباب ذوق نے تخلیق ناول میں مزاحم کچھ عوامل کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن غزل، جدید نظم اور افسانے کے پنپنے میں جو کاوشیں حلقہ کے اجلاسوں میں دیکھنے میں آئیں ناول کے باب میں بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔ غزل اردو کی تہذیبی روایت کا مضبوط حصہ ہے۔ افسانے اور جدید نظم کو اپنے آغاز میں ہی تخلیق کاروں کا ایسا جَتھا میسر آ گیا جنہوں نے ان اصناف کو اوج بخش دیا۔ یہی صورت حال ان اصناف کے ناقدین کی بھی ہے۔

حلقہ کے قیام تک ناول کی عمر ساٹھ (۶۰) سال ہو چکی تھی۔ چند متوجہ کرنے والے ناول بھی تخلیق ہو چکے تھے۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے بعد ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق تمام اصناف ادب پر ترقی پسند اثرات ثبت تھے۔ لیکن کسی خاص فکر کے مِحوَر میں مقید رہنا شاید دیگر اصناف کے لیے تو ممکن ہو ناول کے لیے ہرگز ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے ناول کو حلقہ ارباب ذوق کی فضا ہی زیادہ راس تھی۔

یہاں ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ مقصود ہے۔ اگر بزم داستان گویاں برقرار رہتی اور اس عصر کے ممتاز فکشن نگار اس کا حصہ بن جاتے تو ممکن تھا کہ ناول کی فضا زیادہ ہموار اور خوش گوار ہوتی۔ بزم کا حلقے میں بدلنا اور پھر میرا جی کا حلقہ کی کمان سنبھالنا نہایت اہم واقعہ سہی لیکن اس سارے عمل کا سرا سر فائدہ جدید نظم کو ہوا۔ البتہ میرا جی جیسے جدید فکر کے حامل شخص کی آمد نے قدامت پسندی یا کسی ایک نظریے کی جگالی سے الگ حلقہ کی ایسی فضا تشکیل کی جس میں ہرطرح کے جدید نظریات اور فکریات کی آمد اور قبولیت سہل ہو سکی۔ حلقہ کے اس طرز عمل نے فکشن میں نئے تجربات کی بخوبی آبیاری کی۔

اُردو ناول کے لیے نئے تصورات اور فکریات اساسی ضرورت تھے۔ لیکن حلقہ کے قیام کے وقت ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں کی اکثریت تھی اس لیے اردو ناول طبقاتی کشمکش، استحصال، سماجی گروہ بندی، عدم مساوات وغیرہ کے موضوعات تک محدود تھا۔ یا پھر روسی ناولوں کی ادھوری تقلید کی جا رہی تھی۔

ترقی پسند لکھنے والوں میں عزیز احمد، کرشن چندر، عصمت چغتائی قدرے ناول کے فن سے انصاف کر پائے۔ فکشن لکھنے کی قوت، کسی ایک واقعے کی تمام جزئیات کا مؤثر بیان، ماجرے پر گرفت کے ساتھ  قرۃ العین ناول کی دنیا میں وارد میں ہوئیں، البتہ ان کے مخصوص تعصبات، ایک خاص تہذیب سے لگاؤ اور اس کے بیان تک محدودیت وغیرہ جان دار ناول کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔


مزید دیکھیے: بانو قدسیہ مرحومہ، خدا غریق رحمت کرے، پر اس “افیون” کا کیا کریں؟

کراری باتوں کے گرد لگے مجمعے


مغرب میں سماجی زندگی میں فلسفے کا اہم کردار ہر عہد میں موجود رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرق میں شاعری کو مقبولیت حاصل رہی ہے۔ مشرق کے ادبی ورثے میں فلسفے کو بھی شعر کی صورت موضوع بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے فلسفہ کی تفہیم اور عملی سماجی زندگی میں اس کی شمولیت اپنی اہمیت کے اعتبار سے ممکن نہ ہو سکی۔

پاکستان کے تہذیبی و سماجی مسائل کی سَمِت نُمائی فلسفے کو کرنی تھی لیکن ہمارے سماج میں کوئی بڑا فلسفی پیدا نہ ہو سکا۔ اقبال بھی اسی روایت کا حصہ رہے جہاں فلسفے کو شعر میں سمونے کی سعی کی جا رہی تھی۔ دیگر سماجی سائنسوں کے اصل پارکھ بھی پاکستانی سماج میں جنم نہ لے سکے جس کی وجہ سے سماجی سمت کا درست تعین نہ ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ناول نگار کی ذمہ داری بڑھ گئی اور اسے ان شعبوں کی تفہیم کا فریضہ بھی ادا کرنا پڑا جن سے اس نے فقط تخلیقی استفادہ کرنا تھا۔ گویا اردوکے ناول نگاروں نے مذہب، تہذیب، تاریخ، فلسفہ اور اس کے تصورات کو بھی قصے میں جگہ دینی شروع کی اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔

لیکن ایک قضیہ موجود رہا کہ کیا یہ تمام تصورات ماجرے میں آمیخت ہو کر آئے ہیں، یا سطح پر الگ تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ اردو ناول نگاروں پاکستانی سماج کو درپیش علمی، ادبی، تاریخی اور دیگر عمرانی مسائل کا تخلیقی سطح پر احاطہ بھی کیا ہے اور ان کے ادراک کے ساتھ بھرپور اظہار کی کوشش بھی کی ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کا امتیاز بھی یہی ہے کہ یہاں دانش ور باقاعدگی سے اکٹھا ہوتے ہیں اور تخلیقی ادب کی تفہیم نہ صرف ادبی پیمانوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں بل کہ پاکستانی اور عالمی منظر نامے کو بھی ادبی تفہیم کے دوران زیر بحث لاتے ہیں جس سے نئی فکریات اور نئے فلسفیانہ مباحث کے در وا ہوتے ہیں۔ اس طرح فن پارے کی فقط ادبی جہت ہی سامنے نہیں آتی بل کہ ’’ادب تنقید حیات ہے‘‘ کے مصداق زندگی کی دیگر سیاسی، سماجی، تہذیبی و تاریخی جہات کے گوشے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔

حلقہ ارباب ذوق کے تخلیق کاروں پر کسی مخصوص فکر کی چھاپ نہیں تھی اور نہ ہی لکھنے والوں کے لیے کوئی باضابطہ منشور تھا سو یہ فضا ناول کو زیادہ راس آئی۔ لیکن حلقہ کے ابتدائی سالوں میں کوئی اہم ناول نگار سامنے نہیں آیا۔ تاہم بعد کی دھائیوں میں چند اہم ناول ان لکھنے والوں کے سامنے آئے جن کی بنیادی تربیت کا سامان حلقہ نے بہم کیا تھا۔

پاکستانی دور کے ناولوں کو تہذیبی سطح پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی انہیں تہذیبی و تاریخی شعور کے تین رجحان کہا جا سکتا ہے۔

۱۔ وسطی ہند اسلامی تہذیبی و تاریخی اثرات

ب۔ اندس تہذیب و تاریخ کے اثرات

ج۔ قیام ملک کے بعد کی عمومی پاکستانی صورت حال

وسطی ہند رجحان کے زیر اثر لکھنے والوں میں قرۃ العین، احسن فاروقی اور شوکت صدیقی وغیرہ نمایاں تھے۔ پاکستانی دور میں ان اثرات کے زیر اثر لکھنے والوں میں نمائندہ نام انتظار حسین کا ہے۔ اردو ناول میں وسطی ہند کی تہذیبی بازیافت بالخصوص ان ناول نگاروں کی تخلیقات میں زیادہ ہے جو ان علاقوں سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ جو تہذیب ان کے لا شعور میں رچ بس چکی تھی اس سے گلو خلاصی سہل عمل نہ تھا۔ سو انتظار حسین بھی اس تہذیب کو اپنا آدرش قرار دے کر اس کا تخلیقی اظہار کرتے ہیں۔

انتظار حسین کے تہذیبی شعور میں روپ نگر ایسی بستی ہے جس سے بچھڑنے کا دکھ ان کے تخلیقی عمل میں ناسٹلجیا کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انتظار حسین اپنے ماضی کا رشتہ مسلم عہد کے تاریخی ماضی سے جوڑتے ہیں، لیکن انہیں بر صغیر کے ارضی ماضی سے بھی دل چسپی ہے اسی لیے ان کے ماجرے میں کئی ماضی (pasts) جمع ہو جاتے ہیں۔ ’’بستی‘‘ کی معنویت فن کار کے ماضی میں کھلتی ہے جب کہ ’’آگے سمندر ہے‘‘ میں انتظار حسین نئی زمین کے ساتھ جڑنے اور اسے اپنا مستقل مستقر قرار دینے کی بات کرتے ہیں۔

ناول کے جس دوسرے رجحان کی بات کی گئی ہے اور جو موجودہ پاکستان کے تاریخی تہذیبی خطوں پر مشتمل علاقہ ہے یعنی اندلس وادی کی تہذیب اس کا بیان ان نگاروں کے ہاں موجود ہے جن کا تعلق جغرافیائی اعتبار سے ان علاقوں سے تھا۔ اس تہذیبی قوت کے بیان کرنے اور اسے اپنے تخلیقی عمل کا حصہ بنانے والوں میں نمائندہ نام مستنصر حسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ کے ہیں۔

تارڑ کے دونوں اہم ناول ’’بہاؤ‘‘ اور ’’راکھ‘‘ اس رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تارڑ کا اختصاص یہ ہے کہ وہ مقامی تہذیب و ثقافت کو کھنگالتے ہیں اور اسے جدید عہد کے ساتھ متصل کر دیتے ہیں، ’’بہاؤ‘‘ تارڑ کے تہذیبی و تاریخی شعور کا نمائندہ ہے۔ مصنف اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ زندگی کا ارتقا تاریخی شعور کے ذریعے ہی جانچا جاسکتا ہے۔ ’’بہاؤ‘‘ در اصل وقت کا بہاؤ ہے جو بستیاں بساتا، اجاڑتا اور پھر بساتا چلا آ رہا ہے گویا ناول میں فن کار کا شعور اس امر کا عکاس ہے کہ زندگی ایک نامیاتی عمل ہے جو مسلسل ارتقا میں ہے۔

’’راکھ‘‘ کے پس منظر میں قدیم بدھ تہذیب کے آثار موجود ہیں۔ ’’راکھ‘‘ در اصل ’’بہاؤ‘‘ کی اگلی کڑی ہے۔ وہاں قدیم تہذیب کے نا بُود ہونے کا ماجرا ہے اور یہاں ان عوامل کی نشان دہی کی گئی ہے جو جدید پاکستانی تہذیب کے نا بُود ہونے کو آشکار کر رہی ہے۔

سندھ ساگر اسلامی تہذیبی امتزاجی رجحان کا ایک اور اہم ناول مرزا اطہر بیگ کا ’’غلام باغ‘‘ ہے۔ یہ اکیسویں صدی میں تخلیق ہونے والا سب سے اہم ناول ہے۔ ناول کا موضوع فرد اور تہذیب کے ما بین کشمکش ہے۔ ناول کے کردار اپنی زندگی کی معنویت کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ ناول میں معاصر دیہی زندگی صدیوں پرانی خانہ بدوش معاشرت سے متصل دکھائی دیتی ہے۔ مصنف کا مدعا یہ ہے کہ جہاں کھدائی کر کے قدیم تہذیب دریافت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں قدیم مانگر جاتی کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔ نئی مادی ضرورتوں نے قدیم بر تر تہذیبوں کو اس طرح بے شکل کیا ہے کہ اب ان کی جگہ تہذیبی تناظر کے حاشیے پر بھی شاید ممکن نہیں رہی۔

اطہر بیگ کا ایک اور اختصاص ناول میں اسلوب کے تجربات کا بھی ہے ۔ تارڑ کا ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ اور اطہر بیگ کے ناول ’’غلام باغ‘‘ اور ’’حسن کی صورت حال‘‘ اردو ناول میں اسلوب کی منفرد نوعیت کے حامل ہیں۔ جہاں حلقہ ارباب ذوق نے جدید اور مابعد جدید تصورات کو خوش دلی سے اپنے مباحث کا حصہ بنایا ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مابعد جدید تصورات کی روشنی میں جامعات ان ناولوں کے اسالیب کی نوعیت اور بنت کو بھی موضوع بنائیں۔

ناول کا تیسرا رجحان پاکستانی سماج کو درپیش مسائل اور ان کا بیان ہے۔ اس رجحان کو پاکستانیت کا شعور بھی کہا جاسکتا ہے۔ اردو کے تمام لکھنے والے اس کا حصہ ہیں۔ انتظار حسین، فاروق خالد، مستنصر حسین تارڑ، انیس ناگی، اطہر بیگ، محمد عاصم بٹ وغیرہ لاہور کے دبستان سے جب کہ راولپنڈی اسلام آباد میں منشا یاد، ارشد چہال، محمد حمید شاہد، محمد الیاس وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

پاکستانیت کے شعور کے حامل رجحان میں خالص پاکستانی تہذیبی اساس کو اس کی بُو قلمونی سے اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کے تہذیبی خطے اس کا موضوع بنتے ہیں اور پاکستان کی داخلی ثقافتی وحدت کا بیانیہ ناول میں ظاہر ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ وحدت پاکستان کی تمام قومی ثقافتوں کی بُو قلمونی اور ہمہ رنگی سے پھوٹتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد اکثر لکھنے والوں نے خالصتاََ پاکستانی مسائل کو موضوع بنایا ہے اور ان کے حل کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی سماج کی تہذیبی، تاریخی، نفسیاتی اور سیاسی و سماجی عکاسی کرنے والے ناول نگاروں کی اکثریت حلقہ ارباب ذوق کی بلا واسطہ یا با لواسطہ تربیت یافتہ تھی۔ اس نا مکمل فہرست میں چند مزید نام یہ ہیں۔ عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، شبیر حسین، غلام الثقلین نقوی، انیس ناگی، انور سجاد، فاروق خالد، جمیلہ ہاشمی، نثار عزیز بٹ، حسن منظر، منشا یاد، رضیہ فصیح احمد، حمید شاہد اور دیگر۔

بانو قدسیہ کا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ اپنی فکر کے حوالے سے متنازع رہا ہے۔ حرام و حلال کے مخصوص تصورات سے قطع نظر ناول قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں پیدا ہونے والی زَر پرستی، ہَوَسِ دولت اور خود غرضی جیسے سماجی مسائل کا عکاس ہے۔

پاکستان کے سیاسی و سماجی پس منظر کے حوالے سے ساٹھ (۶۰)کی دھائی کا زمانہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ جدیدیت کی تحریک کے بطن سے وجودیت کے حامل افکار کو فروغ ہوا جب کہ اسلوب کی سطح پر علامت نگاری کے تجربات کیے گئے۔ موضوعاتی سطح پر فوجی استبداد کے خلاف مزاحمت کو فروغ ہوا۔

علامت کا زیادہ استعمال شاعری اور افسانے میں ہوا۔ ناول میں یہ تجربہ انور سجاد کے ناول ’’خوشیوں کاباغ‘‘ اور فہیم اعظمی کے ناول ’’جنم کنڈلی‘‘ میں نظر آتا ہے۔ ان ناولوں میں جبر کے ماحول میں براہ راست صداقت کے اظہار کے بجائے اخفا سے کام لیا گیا اور سماجی عصریت کے بیان میں تہہ دار بیانیہ کو اپنایا گیا۔ اس طرح اردو ناول میں ایسے ماجرے کے رجحان کو فروغ ہوا جو قومی بے حِسی، غیر جمہوری سوچ، سماجی استحصال اور جبر کا اظہار کر سکے۔ وجودی فکر کے حامل ناول نگاروں میں رجحان ساز نام انیس ناگی کا ہے۔’’دیوار کے پیچھے‘‘ اور ’’محاصرہ‘‘ وجودی تصورات کے حامل ناول ہیں۔ اکیسویں صدی میں نئے فنی، اسلوبیاتی اور فکری رجحانات کا اضافہ بھی حلقہ ارباب ذوق کا مرہون منت ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ حل طلب ہے کہ ما بعد جدید فکریات یا عُرفِ عام میں تھیوری نے تخلیقی ادب کے حوالے سے کیا جدت پیدا کی ہے؟ کیا ہم نشان دہَی کر سکتے ہیں کہ موجودہ پاکستانی ادب کا نمایاں رجحان کیا ہے؟ صارفیت، دہشت، خوف، طبقاتی تفاوت سے پیدا ہونے والے نفسیاتی عوارض، سماجی انتشار، مذہبی شدت پسندی کا فروغ عالمی اجارہ داری، جنگ کا خوف، عدم سکون، بے حِسی، خود غرضی، بے گانگی اور ایسے دیگر عوامل اردو ناول کا موضوع بن رہے ہیں لیکن سوال اب بھی موجود ہے کہ یہ اور ایسے دیگر عوامل مل کر کیا کوئی ایک اہم رجحان تشکیل دے رہے ہیں؟

اکیسویں صدی میں اب تک کے عرصے میں چند اہم ناول لکھے جا چکے ہیں۔ لیکن ان ناولوں میں کوئی مجموعی رجحان یا مزاج تشکیل پاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ان ناولوں کے عمومی موضوعات میں ملک میں جاری فوجی استبداد، سیاسی محرومی، آزادی اظہار کے مسائل، سرمایہ دارانہ نظام کی پھیلائی ہوئی صارفیت کی وبا، تیسری دنیا کے ممالک کا محض سامراج کی منڈی بننا اور عوام کا تماشا اور تماشائی بن کے رہ جانا، تشدد، خوف، انتہا پسندی، دہشت گردی اور دولت کی بنیاد پر گہری ہوتی ہوئی طبقاتی تقسیم، مذہبی جبر کا فروغ، بے معنویت، لغویت، بے گانگی، ریاستی اداروں پر عدم اعتماد وغیرہ شامل ہیں۔

اشفاق رشید، زاہد حسن، محمد عاصم بٹ، شاہد صدیقی اور حال ہی میں شائع ہونے والا اختر رضا سلیمی کا ناول ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ اور ان جیسے دیگر ناول نگاروں سے امید بندھ چلی ہے کہ ناول میں ابھی بڑے تجربے کے امکانات موجود ہیں۔’’خس و خاشاک زمانے‘‘، ’’اے غزال شب‘‘از مستنصر حسین تارڑ اور ’’غلام باغ‘‘ اور ’’حسن کی صورت حال‘‘ از مرزا اطہر بیگ کے ناول سماج کے عمرانی اور فلسفیانہ منہاج کی دریافت کی عمدہ مثال ہیں اور اکیسویں صدی میں مزید اچھے ناولوں کی امید کی تمہید ہیں۔

۱۱/۹ کے بعد یک قطبی دنیا اور اس کے پاکستانی سماج پر اثرات، ملکی سرحدوں پر عسکری شدت پسندی کا دباؤ، بڑھتی ہوئی صارفیت،زندگی کی خالصتاً کمرشل بنیادوں پرتعمیر، اشیاء کی اہمیت، حقیقت کا التباس، عالمی کلچر کے اثرات، احساس تنہائی، وجودی کرب، زندگی سے مغائرت اور عدم دل چسپی، فکری و نظریاتی الجھنیں، غیر یقینی صورت حال، عدم شناخت، انسانی قدروں کی شکست و ریخت، متصادم مذہبی نظریات، تشکیک اور غیر یقینی صورت حال وغیرہ ناول کا موضوع بننے والے مسائل ہیں۔ زندگی کے ایسے تمام مسائل در حقیقت ناول کا ہی موضوع بن سکتے ہیں کیوں کہ یہی ایک صنف ادب ہے جو تنگ دامانی کا شکوہ نہیں کر سکتی۔

حلقہ ارباب ذوق میں مختلف ناول نگاروں کی طرف سے ناول کے ابواب حلقہ کے اجلاسوں میں پڑھنے کی روایت اب بھی موجود ہے۔ لیکن ناول کی تنقید کی روایت مستحکم نہیں ہو سکی۔ حلقہ کی تنقید چونکہ مجلسی ہونے کے ناطے با لعموم تاثراتی ہوتی ہے اس لیے اجلاسوں میں پڑھے جانے والے ابواب کے اسلوب، زبان اور بیانیے پر تو بات ہو جاتی ہے لیکن پورا تخلیقی تجربہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے ناول کے موضوعات اور تکنیک وغیرہ پر بات نہیں ہو پاتی۔ افسانہ چوں کہ ایک نشست میں پڑھا جاسکتا ہے اس لیے افسانے کی تنقید کی روایت ناول کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے۔ ناولاتی تنقیدی شعریات جس کا تعلق ہمارے تہذیبی مزاج، علمی فضا اور ادبی ماحول سے ہو، وضع ہی نہیں ہو پائی۔

ناول کی تنقید کے وضع ہونے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ناول کو داستان کی روشنی میں پرکھا جانا چاہیے تھا لیکن ناول کو افسانے کے ذیل میں رکھ کر پرکھا گیا۔ یعنی ناول کی تنقید آج بھی انہی خطوط کی روشنی میں کی جارہی ہے جو افسانے نے مقرر کیے ہیں۔ ہمارے ادب میں افسانے کو زیادہ شہرت ملی کیوں کہ افسانے کے فوری تاثر کا حصول اور اس کا تا دیر برقرار رہنا ممکن ہوتا ہے۔ جب کہ ناول میں پورے ماجرے کے مطالعے کے بعد نتائج کا فوری استنباط ممکن نہیں ہوتا اس لیے ناقدین عموماََ افسانوں سے اخذ کیے گئے تاثر کو اس ناول نگار پر منطبق کر دیتے ہیں۔

فکشن کی تنقید کی کمیابی اور معیار کی غیر تسلی بخش حالت کا ذمہ دار براہ راست نقاد ہی ہے۔ کیوں کہ نقاد کی سہل انگاری نے ناولاتی تنقید کے نہ تو پیمانے مقرر کیے اور نہ ہی تنقید کی کوئی روایت پیدا کی۔ البتہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں ناول کی تنقید کے مغربی معیارات با لعموم زیرِ بحث آتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہیں سے وہ چشمہ پھوٹ بہے جو ناول کی تنقید کے معیارات مقرر کردے یوں اچھے ناول کی تخلیق کے اسباب مہیا ہو سکیں۔