ادبی ترقی پسندی کے چند فکری مسائل

یوسف حسن

ادبی ترقی پسندی کے چند فکری مسائل

از، یوسف حسن

عمومی سطح پر دیکھا جائے تو ترقی پسندی کا مسئلہ زندگی کے سارے ہی شعبوں میں ہے۔ ادبی ترقی پسندی کے لحاظ سے اس کے تین بڑے پہلو ہیں۔

۱۔ ترقی پسند ادب کی رویات کیا ہیں یا جو ترقی پسند ادب تخلیق ہوا ہے اس کی کیاخوبیاں اور خامیاں ہیں۔
۲۔ ترقی پسند ادبی تنظیم و تحریک کے کیا منفی اور مثبت پہلو ہیں۔
۳۔ ادب کی طرف ترقی پسندانہ اپروچ (approach) کیا ہے۔

میرا زیادہ موضوع یہ تیسرا پہلو ہی ہو گا، پہلے دو پہلوؤں کا ذکر ضمنی طور پر ہی کیا جائے گا۔میرے تجزیے کے مطابق ادبی ترقی پسندی کی فکری یا جہاں بینی کے لحاظ سے دو بنیادیں ہیں۔یہ کسی واحد جہاں بینی (World View)کی بنیاد پر اُبھرنے والی تحریک نہیں ہے۔ اس اعتبار سے ترقی پسندی کی اصطلاح وسیع تر معنی رکھتی ہے۔ اس کی ایک فکری بنیادمارکسی ہے اور دوسری غیر مارکسی،وہ چاہے کسی فلسفیانہ ملکیت کی رُو سے ہو یا مذہبی رُو سے۔ان بنیادوں میں باہمی اختلافات کے باوجود دونوں طرح کے ترقی پسندوں کا ،ترقی پسند ادبی تحریک میں اتحاد ہوا اور یہ اتحاد جہاں بینی کی یکسانی پر نہیں بلکہ آئیڈیالوجی پر ہوا اور اس آئیڈیالوجی میں اہم نکات برطانوی سامراج سے قومی آزادی اور بالائی طبقات سے نچلے طبقات تک کی نجات کی جدوجہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپروچ کا جہاں تک تعلق ہے تواس میں اپنے آپ ایک مسئلہ آجاتا ہے۔میتھاڈالوجی Methodologyیا منہاجیات کا مذہبی ترقی پسندوں کے پاس ادب کے جاننے اور پرکھنے کے جو طریقے ہیں وہ مختلف ہیں ان کے ہاں کو مشترک اور منضبط منہاجیات نہیں ہے۔

کچھ باتیں ادھر اُدھر بکھری ہوئی مل جاتی ہیں جبکہ مارکسی ترقی پسندی اپنے سائنٹفک ہونے کی دعویدار ہے اور اس کی ایک باقاعدہ منہاجیات ہے۔کائنات کے نقطۂ نظر سے بھی سماجی لحاظ سے بھی اور ہر مخصوص شعبۂ علم میں بھی۔ظاہر ہے مخصوص شعبوں کے لحاظ سے اس منہاجیات کی شکلیں بھی مختلف ہیں کیوں کہ ہر شعبے میں ساخت،حرکت اور ارتقاکی شکلیں مختلف ہیں ۔لیکن جوترقی پسندی کے دوسرے اسکول ہیں، ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا۔تاہم ان کے ہاں بھی کچھ نہ کچھ سائنسی یا عقلی باتیں ہوتی ہیں کیوں کہ سائنس صرف ان کے ہاں ہی نہیں ہوتی جو سائنس کو اپنانے کے دعویدار ہیں۔ سائنس کے معروضی اصول ہوتے ہیں۔کسی کا عقیدہ یا تصورِ کائنات،مادیت پسندانہ یا مثالیت پسندانہ یا مذہبی کوئی بھی ہو اس کی بات اگر سائنس کے معروضی اصولوں کے مطابق ہے تو وہ سائنٹفک ہے ۔ کسی کے مذہبی یا مثالیت پسند ہونے کی وجہ سے یہ بات مطلق طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ اس کے ہر بات غیر عقلی یا غیر سائنسی ہے۔اس طرح ترقی پسندی کا جو آئیڈیالوجیکل اپروچ کا مسئلہ ہے بذاتِ خود اس کا بھی سائنٹفک ہونا لازمی نہیں ہے۔قومی آزادی کی حمایت میں عوامی طبقات کی حمایت میں اور سامراج کی دشمنی میں کوئی سائنسی یا غیر سائنسی اپروچ لے رہا ہو، اس اپروچ کا کردار ترقی پسندانہ ہے ۔ترقی پسند ہونے کے لیے لازم نہیں کہ اس کا نقطۂ نظر سائنٹفک ہو۔ جدید سائنس کے ارتقا کی پچھلی تاریخ میں جو ترقی پسندی اور غیر ترقی پسندی کی کش مکش ہے اس میں ایسی مثالیں موجود ہیں اور بعد کے دور میں جب موجودہ سائنٹفک ترقی پسندی کی تشکیل ہوئی ، اس دور میں بھی یہ مثالیں موجود ہیں کہ غیر سائنسی اپروچ کے ساتھ بھی ترقی پسندی نے اپنااظہارکیا۔ یہ تو عمومی سی بات تھی۔

اب اگر منہاجیات کو پہچاننے کی کوشش کریں اور اس میں سائنٹفک ہونے کی کوشش کریں تو کسی بھی ترقی پسند کی مجبوری ہے کہ وہ مجموعی طور پر مارکسزم (Marxism) کی طرف دیکھے کیوں کہ مارکسزم پوری زندگی کے سارے شعبوں کے لیے ایک عمومی منہاجیات بھی رکھتا ہے اور ہر مخصوص شعبے کے لیے مخصوص منہاجیات بھی رکھتا ہے۔ ادب کی طرف سارے ترقی پسندوں کی عمومی طور پر مارکسی ترقی پسندوں کی جو اپروچ ہے اس کے بارے میں کتنے ہی مغالطے عام ہیں۔ میں جو کچھ کہوں گا اس میں شاید ہی کوئی ایک آدھ بات نئی ہو۔ میں نے ترقی پسندوں کی اُردو تنقید اورکچھ انگریزی تنقید سے اپنی توفیق کے مطابق جو پڑھا ہے اسی حوالے سے بات کروں گا۔اس میں کوئی غیر معمولی نئی چیزنہیں ہے۔ مجھے خود حیرت ہوتی ہے کہ ترقی پسندوں نے اپنی اردو تنقید میں جو باتیں کہی ہیں، میں وہی باتیں کہتا ہوں تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آپ یہ باتیں کہاں سے کرتے ہیں۔ مثلاً ایک مسئلہ ادب کے فنی و جمالیاتی معیار کا ہے اور ترقی پسندوں کے بارے میں یہ مغالطہ پھیلایا گیا ہے کہ انھیں صرف آئیڈیالوجی سے غرض ہوتی ہے، فنی و جمالیاتی معیار ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ معتبر ترقی پسند نقاد اس اعتراض کا بار بار جواب دے چکے ہیں ۔مثال کے طور پر رجعت پسندی پر ممتاز حسین کا ایک مضمون ہے وہ مضمون ختم ہی اس بات پر ہوتا ہے کہ ادب کی معیار بند ی درمیانے درجے کے یا عامیانہ ادب کو سامنے رکھ کر نہیں ہوگی بلکہ اعلیٰ ادب پاروں کو سامنے رکھ کر ہوگی کہ کون سا ادب چھوٹا یا بڑا ہے اور تاریخ میں اس کا کیا مقام ہے۔

ادب کی طرف ترقی پسندانہ اپروچ کا موضوع بہت بڑا ہے۔ اس کے سارے پہلوؤں پر بیک وقت بات کرنا مشکل ہو گا۔ مذہبی اور سائنسی ترقی پسندی سب کو قبول کرتے ہوئے اس کو اپنی توفیق کے مطابق عقلی اور سائنسی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا جو خاکہ میرے ذہن میں آتا ہے اس کی رُو سے ترقی پسندوں کے نزدیک ادب ایک ترکیبی(Composite)مظہر ہے یعنی اس میں زندگی کا یا شعور کا، کوئی ایک شعبہ اظہار نہیں پاتا ۔ ادب کا دوسرے مخصوص علوم کے برعکس کوئی ایک مخصوص موضوع نہیں ہوتا۔معروضی لحاظ سے دیکھا جائے تو چاہے وہ فطرت ہو یا سماج __ کائنات کی کوئی بھی چیز ادب کا موضوع بن سکتی ہے۔ یوں ایک تو معروض کے حوالے سے اس کے موضوع میں وسعت ہے اور یہ ترکیبی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس میں شعور کی ساری شکلیں کسی نہ کسی طرح کم و بیش گھلی ملی ہوتی ہیں۔چاہے وہ شعور سیاسی ہو ، عمرانیاتی ہو ، نفسیاتی ہو، جمالیاتی ہو یا اس کی کوئی شکل اور ہو۔اس طرح سائنٹفک شعور بھی اس میں شامل ہے اگرچہ اس کا کچھ دوسرے پہلوؤں سے ادب کے ساتھ اختلاف ہے۔موضوعی سطح پر دیکھا جائے تو معروضیت کے ساتھ موضوعیت کی شمولیت کے بغیر ادب کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یوں ادب اپنی نیچر میں اپنے اندر سے ہی ایک ترکیبی مظہر ہے۔

ادب جب ایک ترکیبی (composite) مظہر ہے تو پھر اس کے پرکھنے کے لیے ا س کی طرف اپروچ بھی ترکیبی ہونی چاہیے۔ ترقی پسندوں کی اس ترکیبی اپروچ کو امتزاجی تنقید کے مکتب سے مخلوط نہ کرنا چاہیے کیونکہ امتزاجی تنقید کا مکتب معروضیت پسندی کی بجائے موضوعی مثالیت پسندی کی معروضیت پسندی اور مثالیت پسندی میں واضح تضاد موجود ہے۔ بہر حال ترقی پسند تنقید اصولی طور پر ترکیبی اپروچ کو اپناتی ہے۔ شعور کے کسی ایک شکل یا کسی ایک شعبۂ علم کے حوالے سے ادب کا تجزیہ کرنا ادب کا پورا تجزیہ نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ ہر ترقی پسند نقاد شعور کی ساری شکلوں یا علم کے سارے شعبوں پر حاوی نہیں ہوتااور وہ اپنی علمی توفیق کے مطابق شعور کی کسی ایک شکل یا علم کے ایک دو شعبوں سے کام لیتا ہے۔ جامع ادبی تنقید شعور اور علم کی ساری شکلوں کے شعبوں سے مل رہ کر وجود میں آتی ہے ،چاہے وہ نفسیات میں ہے ، سیاسیات میں ہے ، سیاسی معیشت میں ہے ، یاعمرانیاتی شعبے میں ہے۔ میری یہ بات بھی کوئی نئی بات نہیں ہے مثلاً ممکن ہے ظہیر کاشمیری نے اپنی تنقید میں ترکیبی یا composite کا لفظ استعمال کیا ہو لیکن مارکسی تنقید کے زیر عنوان اس کا جو مضمون ہے اس میں وہ یہی بات کر رہا ہے کہ عمرانیاتی تنقید کا یانفسیاتی تنقیدکا جمالیاتی تجزیے سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی دھیان میں رہے کہ امتزاجی (synthetic) تنقید کی اساس انتخابیت پسندی (Eclecticism) پر ہے جس میں بے جوڑ چیزوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ترقی پسندوں کی ترکیبی اپروچ احدیت پسندانہ Monistic ہے یعنی یہ جدلیات کے لحاظ سے احدیت پسندانہ ہے ۔ اس حدیت پسندانہ بنیاد پر ترقی پسند ادبی تنقید ترکیبی ہے۔ اس میں تحقیق کے تین طریقوں سے کام لیا جاتا ہے۔ایک: ادب کو تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھنا ، دوسرا: اسے تجرباتی طور پر دیکھنا اور تیسرا : اسے تجربی سطح پر دیکھنا ۔ یعنی میرا ایک قاری کے طور پر ادب سے کیا رشتہ بن رہا ہے یا تخلیق کا ر کے طور پر میرا قاری سے کیا رشتہ بن رہا ہے۔ یہاں پر میں تخلیقی پراسیس کو موضوع نہیں بناؤں گا۔مجھے اعتراف ہے کہ اس موضوع پر میرا اتنا علم نہیں ہے ۔البتہ ہم تخلیقیت Creativety کے سٹرکچر پر کچھ نہ کچھ باتیں کر سکتے ہیں۔

مارکسی ترقی پسندی کی رُو سے ادب فنی و جمالیاتی پہلوؤں کی فوقیت کے باعث غیر ادب سے مختلف اور ممتاز ہوتا ہے ۔جمالیاتی شعور دنیا کے انجذاب(Assimilation)کی ایک خصوصی شکل ہے اور ظاہر ہے جب ادب میں جمالیاتی شعور کی اس خصوصی شکل کا اظہار ہوتا ہے تو پھر ادب کا کوئی متبادل نہیں رہتا۔ چاہے وہ سیاسی معیشت ہو، وہ سیاسیات ہو یا کسی اور قسم کا شعور ہو۔ شعور کی کوئی بھی ایک شکل ادب کی متبادل نہیں ہو سکتی ۔فن کئی فنون لطیفہ کی حسی تجسیم ہے ۔ ہر فن دوسرے سے اس حسی تجسیم کے ابتدائی مواد کے فرق سے الگ ہو جاتا ہے۔ مثلاً پتھر، رنگ اور لکیریں ،جسم کی حرکت اور پھر زبان ،ادب کاابتدائی موادزبان ہے۔ادب کا خام مواد کیا ہے؟ خام مواد کی اصطلاح مارکس سیاسی معاشیات میں اس مواد کے لیے استعمال کرتاہے جس پر انسان کی کچھ نہ کچھ محنت صرف ہوچکی ہو۔ خام مواد کی اس اصطلاح کو ادب وفن میں لائیں تو ہر نئی نسل کے لیے پچھلی ساری تاریخ میں جو کچھ ہو چکا ہے وہ خام مواد تصور کیا جائے گا ۔ اس میں مشینیں ہو ، دوسری چیزیں ہوں یا پچھلے فن پارے ہوں، سب کچھ نئی نسل کے لیے خام موادکی حیثیت رکھتا ہے اور یہ خام مواد سماجی تاریخی دور میں ہماری انفرادی ذات سے باہر سماجی و خارجی حقیقت کے طور پر وجود رکھتا ہے ۔فطرت بھی بطورخارجی حقیقت موجود ہے اور اس کو بھی انسان کی فعالیت نے تاریخ میں تبدیل کیا ہے۔یہ ساری خارجی حقیقتیں ادب کا براہِ راست مواد نہیں بنتیں، بلکہ تمثالوں ، احساسات، تصورات، خیالات اور تخیلات میں ڈھل کر ادب کا مواد بنتی ہیں۔دوسرے سوالوں میں موضوعیت میں تبدیل کی جاتی ہیں ۔انسان کی نفسیات سے گزار نے کے پر اسیس سے جو دنیا بنتی ہے وہ میٹریل دنیا کے مقابلے میں آئیڈیل دنیا ہوتی ہے۔

یہ آئیڈیل مظاہر وہ خام مواد ہیں جن پر ادیب کام کرتا ہے ادیب خارجی مظاہر پر ،چاہے وہ سورج ہو یا پتھر ،کام نہیں کرتا ۔یہاں فلسفہ کا ایک بنیادی مسئلہ آ جاتا ہے کہ فطرت یا سماج جن کے مظاہر تمثالوں میں ڈھلتے ہیں ۔یہ مجھ سے باہر آزادانہ وجو د رکھتے ہیں یا اپنے وجود کے لیے میرے محتاج ہیں ۔ اس مسئلے پر ہر قسم کی ترقی پسندی اشیا کا فرد سے باہر اور آزادانہ وجود سے انکار کرتی ہے اور جو اپنے زعم میں اس بنیادی سوال سے بھاگنا یا بالاتر ہونا چاہتے ہیں جیسا کہ اثباتیت والے ہیں ،وہ بھی آخر میں اسی موضوعی مثالیت میں جا پھنستے ہیں ۔چاہے وہ برٹرینڈرسل ہو یا وٹگنسٹائن ہو۔ یہ بات اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے خطے کی ادبی تاریخ میں ۱۹۶۰ء میں جو جدیدیت کی نظریہ سازی ہوئی وہ بھی اسی موضوعی مثالیت پسندی کی بنیا د پر تھی اور آج جو مابعد جدیدیت کے نام پر نظریہ سازی ہو رہی ہے اس کے پیچھے بھی یہ موضوعی مثالیت پسندی پر قائم لا ادریت پسندی ہے جبکہ فطرت اور سماج کے خارجی حقیقت کے طور پر موجود ہونے پر سائنسی ترقی پسندی اور مذہبی ترقی پسندی کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور ان دونوں کا اس مسئلے پر موضوعی مثالیت پسندی سے کھلا تضاد ہے۔ جس کو میں خام مواد کہہ رہا ہوں وہ کسی خارجی حقیقت کے عکس ہیں۔

عکس یا انعکاس کی مختلف شکلیں اور سطحیں ہیں ۔ اس کی ایک ابتدائی شکل تمثال یا حسیّت ہے جو جانوروں میں بھی ہوتی ہے۔ تمثال یا حسیت کے تصور سے ایک شکل notion بنتی ہے جب ہم تمثال کو کوئی نام دیتے ہیں تو وہ notion ہوتی ہے جو کسی شئے کی ایک عمومی حسی تمثال ہوتی ہے اور اپنی اس حیثیت میں ہم اسے کوئی معنویت عطا کردیتے ہیں اور یہ معنویت اسے تاریخی سماجی ماحول اور روایات میں عطا کرتے ہیں۔ مارکسی ترقی پسندوں کے ہاں جب انعکاس کی اصطلاح استعمال ہوتی اس سے ان کی مراد کوئی حیاتیاتی چھاپ یا  trace یا نشان نہیں ہوتا بلکہ انسان کی ایکٹوٹی کا انعکاس ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ باقی سارے مکاتبِ فکر فطرت اور انسان کے آپس کے تعلق کو دو گو نہ رشتے میں دیکھتے ہیں اور یوں فطرت اور انسان کو دوگونہ رشتوں میں دیکھتے ہوئے انسان کو پہلے سے بنا بنایا فرض کر لیا جاتا ہے۔ اور جب انسان کو بنا بنایا فرض کر لیا تو ہم انسان کو ماورائے تاریخ لے گئے اور یک گیر تاریخی نقطۂ نظر اپنایا۔

مارکسی ترقی پسند فطرت اور انسان کے درمیان دوگونہ رشتے کے بجائے سہ گونہ رشتے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فطرت اور انسان کے درمیان سماجی عمل کا رشتہ ہے۔ انسان اس سماجی عمل میں فطرت کو بھی اور اپنے آپ کو بھی تبدیل کرتا ہے اور تبدیل کرتا جاتا ہے یوں خود انسان ایک تاریخی ہستی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ دنیا فلسفے کے بنیادی سوال کے حوالے سے تو ایک معروضی حقیقت ہے اور اپنے وجود کے لیے ہمارے وجود کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن ہم جس تاریخی دنیا میں رہ رہے ہیں یہ تاریخ میں انسان کے سماجی عمل سے بدلی ہوئی دنیا ہے۔گویا انسان اب اپنے ہی بدلے ہوئے ماحول میں رہ رہا ہے یہ سماجی عمل یا ایکٹوٹی تھیوری مارکسی ترقی پسندی کا ایک بنیادی سوال ہے اور جب اس اصول کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر لوگ سٹرکچرلزم میں پھنس جاتے ہیں ۔ پھر گوپی چند نارنگ کی طرف سے بحث چھڑتی ہے کہ جناب موضوع یعنی انسان بطور فعال ہستی ختم ہو گیا ہے ۔ اس اکیٹوٹی تھیوری ہی کو نظرانداز کرکے ہی یہ بات کہی جاتی ہے کہ زبان کو انسان اور انسان زبان کو بناتی ہے انسان زبان میں ’’میں‘‘ کہتا ہے تو وہ ’’میں ‘‘ ہوتا ہے گویا اسے زبان موضوع ،فعال ہستی یا عامل بناتی ہے ۔ لیکن مارکسی ترقی پسند کہتے ہیں کہ پہلے سماجی عمل ہے زبان بعد میں_____ اینگلز نے لاادریت پسندوں کو جواب دیتے ہوئے گوئٹے کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’ لفظ سے پہلے عمل تھا‘‘ انسان اپنے سماجی عمل میں اپنے آپ کو موضوع کے حامل یا عمل میں تبدیل کرتا اور جب وہ اجتماعی محنت میں پیداوار کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو فطرت سے الگ اور ممتاز کرنا سیکھتا ہے اور یہ شعور حاصل کرتا ہے کہ میرا فطرت سے رشتہ حیوان والا نہیں ہے۔ حیوان جو کچھ کرتے ہیں وہ اپنی جبلتوں اور ماحول کی مطابقت میں کرتے ہیں۔ انسان کا شعور اپنے سماجی پیداواری عمل کی وجہ سے ہی اضافی آزادی کا کردار رکھتا ہے۔ جانور اپنے آپ کو اپنا معمول نہیں بنا سکتا۔

وہ اپنے ماحول سے ذہنی طور پر باہر نہیں نکل سکتا۔ انسان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی موضوعیت پر غور و فکر کرسکتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے ماحول سے باہر نکال سکتا ہے یعنی اپنے شعور اور عمل دونوں میں اور ان کے ساتھ ارادے سے بھی وہ مخصوص زمان و مکان سے آگے یا پیچھے بھی سوچ سکتا ہے ۔یہ اس کا امتیاز ہے۔

ماہنامہ’’ بیاض‘‘ لاہور میں شہزاد احمد کی غزل گوئی پر ظفر اقبال کا ایک مضمون آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ایک ظاہری آنکھ ہوتی ہے اور ایک باطنی آنکھ ہوتی ہے۔ ظاہری آنکھ سے چیزوں کو As it isدیکھا جاتا ہے اور باطنی آنکھ سے آدمی خواب دیکھتا ہے اور چیزوں کو آگے بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔خیر بڑی دلچسپ بات ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان ظاہری آنکھ سے بھی چیزوں کو As it is نہیں دیکھتا اگر انسان کو ظاہری آنکھ سے ،پانچوں خارجی حواس سے چیزیںAs it is نظر آ جائیں تو پھر سائنس کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔مارکس نے کہا ہے کہ ہر سائنسی سچائی روز مرہ کے مشاہدے کے لحاظ سے ایک پیرا ڈاکس ہوتی ہے۔ ظاہری آنکھ سے دیکھیں تو سورج ایک طرف سے نکل کر دوسری طرف ڈوبتا نظر آتا ہے جب کہ سائنسی سچائی کچھ اور ہے اسی طرح بہت سی چیزیں ہمیں ساکن نظر آتی ہیں مگر وہ دراصل متحرک ہیں ۔ انسان کا معروض سے سماج سمیت خود اس کے عمل سے بدلی ہوئی دنیا سے رشتہ ہے اور ا س عمل کے رشتے ہی میں انسان موضوع یا عامل بنتا ہے، تخلیق کار بنتا ہے۔

اب اگر تاریخی حوالے سے دیکھیں تو انسان کے ساتھ ہی ادب ایک باقاعدہ خصوصی شعبے کی حیثیت سے شروع نہیں ہو گیا۔ پہلے انسان نے اپنی بقا کا سامان کیا ۔اس بقا کے کام میں رفتہ رفتہ تقسیم کی محنت کاسلسلہ بڑھتا گیا۔ اسی میں انسان نے جمالیاتی اصول بھی سیکھے ۔رفتہ رفتہ مختلف شعبے مخصوص شکلوں میں ڈھلتے گئے۔اسطوری گیت ،لوک گیت اور کہانیاں قدیم ترین سمایہ ہیں جن میں انسان نے اپنے قدیم دور کی کائنات کو اور خود اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ تخیل کے زور پر ان کی ظاہری آنکھیں یا حواس تو وہی تھے لیکن قدیم انسان چیزوں کو As it is نہیں دیکھ سکے۔ کیوں کہ ہم آج بھی ہر چیز کو As it is نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے لیے کچھ استدلال کی بھی ضرورت پڑتی ہے سماجی عمل کی بھی اور سائنس کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ سچائی کا معیار عمل ہے اور سچائی مقرون(Concrete) ہوتی ہے کہیں اکیلے پڑی ہوئی نہیں ہوتی ۔ اس سماجی عمل ہی میں انسان کی داخلیت بنتی ہے اور بننے کے بعد یہ داخلیت یا شعوردوبارہ خارجی حقیقت پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوتا۔ ایک خارجی یا مادی ایکٹوٹی ہوتی ہے ۔ہم اپنے اعضا کے ذریعے خارجی حقیقت کو بدلتے ہیں مثلاً ہتھوڑے کے ذریعے پتھر کوتوڑتے ہیں ۔دوسری ذہنی یا آئیڈیل ایکٹوٹی ہے ۔ادب کوئی خارجی ایکٹوٹی نہیں ہے بلکہ ایک ذہنی ایکٹوٹی ہے اور ذہنی یا آئیڈیل سطح کا کام خارجی حقیقت پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوتا۔ مارکس سے الفاظ لیتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ادب تنقید کا ہتھیا ر ہے ہتھیاروں کے ذریعے تنقید نہیں ہے۔انسان کی ایک سطح پر مختلف چیزوں میں جمالیاتی اقدار کی تشکیل دیکھ کر ،ادب پڑھ کر یا کوئی فن پارہ دیکھ کر انفرادی طور پر تسکین ہو پاتی ہے۔ وہ بے چین رہتا ہے یہی بے چینی اس کی اندرونی تخلیقی تحریک بن جاتی ہے جو اس سے داخلی آزادی کا تقاضا کرتی ہے۔ اب یہ تحریک کس ماحول میں اور کس شکل میں پیدا ہوتی ہے ، یہ ہر فرد کا مسئلہ مختلف ہوتا ہے۔

ہم جمالیاتی aesthetic عنصر کا بار بار ذکر کر رہے ہیں یہ کیا ہے؟ کیا اس عنصر کے لئے ہمارے اندر کوئی الگ عضو موجود ہے؟ جمالیاتی تجربے اور اظہار کے لئے ہمارے اندر کوئی الگ اور مخصوص عضو نہیں ہے۔ حسیات اور احساس کے لحاظ سے جمالیاتی پہلو ہمارے اندر ہے۔ جمالیاتی ذوق یا احساس کسی نہ کسی جذبے شعور یا احساس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اپنے طور پر کوئی خالص وجود ہمارے اندر نہیں ہوتا۔ یہحسن کے لحاظ سے ہم سے باہر کسی نہ کسی مظہر میں ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں اس لسانی یا عملی اظہا ر میں ایک جمالیاتی پہلو ہی ہوتا ہے اس میں جمالیاتی ذوق بھی شامل ہوتا ہے۔ جمالیاتی پہلو ہمارے اندر یا ہمارے باہر اپنے طور پر کہیں وجود نہیں رکھتا ہمیں کچھ ادا کرنا ہوتا ہے جس کو ہم جمالیاتی طریق کار کے ساتھ کرتے ہیں اور یہ کام بھی انسان نے تاریخ میں سیکھا ہے ۔خاص طور پر تقسیمِ محنت نے اس کی گنجائش پیدا کی ہے کہ کچھ لوگ اس شعبے میں مخصوص بن جائیں۔
تخلیق ادب کی روایات کو جمالیاتی لحاظ سے بھی اور فنی لحاظ سے بھی سامنے ر کھیں تو یہ دوہری روایتیں ہیں ایک لوک ادب کی اور دوسری انفرادی ادب کی۔ لوک ادب کی تخلیق کی روایت قدیم ہے اور انفرادی ادب کی تخلیق کی روایت اس کے بعد شروع ہوئی۔لوک ادب اور انفرادی اد ب کے بنیادی عناصر میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ایک فرق فنی شعور کی کمی بیشی سے پڑ جاتا ہے ۔نفرادی ادب کاباقاعدہ ایک پیشہ وارانہ یا ماہرانہ فنی شعورہوتا ہے جبکہ لوک ادب میں یہ فنی شعور ذرا نیم پختہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرے لوک ادب عمومیت سے زیادہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ وہ کسی پورے گروہ کی نفسیات کو ،ذوق کو اور دوسرے معاملات کو پیش کرتا ہے جبکہ انفرادی ادب میں فرد کی انفرادیت نمایاں طور پر موجود ہوتی ہے جو اسے دوسرے افراد سے مختلف کرتی ہے۔ اس کا فنی شعور اس انفرادیت کے ساتھ اظہار پاتا ہے ہر سچا تخلیقی ادب لازماً تخلیق کار کی انفرادیت کا حامل ہوتا ہے اس انفرادیت کے بغیر کوئی سچا انفرادی تخلیقی ادب نہیں ہوتا۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ انسان خالص فطری آنکھ سے مشاہدہ نہیں کرتا انسان نے سماجی عمل سے فطرت کو بدلنا شروع کیا تو اس نے اپنے آپ کو بھی بدلنا شروع کیا ۔ وہ فطرت کو جتنا زیادہ بدلتا گیا اس کی اپنی ذات بھی اتنی زیادہ ثروت مند ہوتی گئی۔ اس کی یہ ذات سماجی رشتوں میں تشکیل پاتی ہے اور سماجی رشتوں ہی میں نشوونما پا رہی ہوتی ہے۔ چاہے خود اسے ان سماجی رشتوں کا پوری طرح شعور ہو یا نہ ہو۔یہاں آکر جہاں بینی یاورلڈآؤٹ لُک ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ انسان اپنے معاشرے کے کلچر میں، اپنی سماجی روایات میں اور تاریخ میں رہتا ہے۔ پچھلی تاریخ بھی کسی نہ کسی طرح اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا جب وہ چیزوں کو دیکھتا ہے تو چیزوں کو محض چیزوں کے طور پر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کیوں کہ کسی چیز کو اصل چیز کے طور پر دیکھنا اس نے بہت بعد میں سیکھا ہے۔

وہ انہیں کسی نہ کسی جہاں بینی یا ورلڈآؤٹ لُک کے ساتھ دیکھتا ہے اور یہ جہاں بینی سائنسی بھی ہو سکتی ہے اور غیر سائنسی بھی۔ غیر سائنسی بھی اس کی سمت نمائی کرتی ہے ۔جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو چاند میں چرخہ کاتنے والی بڑھیا کا تصور بھی سامنے آتا ہے یا معجزے سے چاند کے دو لخت ہو جانے کی روایت بھی ذہن کے اند ر موجود ہوتی ہے۔ انسان مظاہر کو جمالیاتی رشتے سے بھی دیکھتا ہے اور سائنسی طور پر بھی۔ گویا ہر مشاہدے اور تجربے میں اس کی جہاں بینی موجود ہوتی ہے لیکن جہاں بینی بذات خود کوئی ساکن شئے نہیں ہے۔ سائنس کے انکشافات اور مختلف طبقات کی اپنی ترجیحات اور مفادات مل جل کر اس جہاں بینی کی تشکیل کرتے ہیں ۔ جہاں بینی سے ہماری مراد ان تصورات کے نظام سے ہے جو فطرت سے تعلق میں سماجی عمل میں اور خود فرد کے شخصی عمل میں اس کی سمت نمائی کرتا ہے۔ اس سمت نمائی کے بغیر آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر میں ہر شئے پر شک کرنے لگوں کہ مہ مجھ سے موجود ہے یا نہیں تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ اس طرح ادب میں اس کی فنی و جمالیاتی سطح پر آئیں و جہاں بینی کا مسئلہ ایک تخلیقی مسئلہ بن جاتا ہے۔ جدیدیت پسند اور مابعد جدیدیت پسند نواثبات پسندی کے فلسفے کی بنیاد پر جہاں بینی کو بھی مابعد الطبیعات قرار دے کر اس کی نفی کرتے ہیں وہ بھی اس سے بچ نہیں سکتے۔

میں نے اس سے پہلے نظریہ انعکاس پر کچھ با ت کی ہے۔ مارکسی ترقی پسندوں کا نظریہ انعکاس افلاطون اور ارسطو کی نقل سازی کے نظریے سے مختلف ہے۔ اسے اس کے ساتھ مخلوط نہیں کیا جانا چاہیے۔ نقل سازی ایک لحاظ سے انفعالی اظہار ہے۔ جب کہ مارکس ترقی پسندوں کا نظریہ انعکاس فعالیت پر مبنی ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کا نظریہ انعکاس فنی نیچر لزم سے بھی مختلف ہے فنی نیچرلزم میں چیزوں کو As it is پیش کردیا جاتا ہے۔ ترقی پسندوں کے نزدیک انسان ایک تخلیقی ہستی ہے اور اب بھی ایک فنی و جمالیاتی تخلیقی مظہر ہے جس میں محض انعکاس نہیں ہوتا انعکاس کے ساتھ تخلیق کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ ترقی پسندوں کے بارے میں عام پھیلا ہو امغالطہ ہے کہ وہ صرف انعکاس کے قائل ہیں ۔ انعکاس کے بغیر تخلیق نہیں ہو سکتی۔ ادب میں انعکاس اور تخلیق کے دونوں پہلو ہوتے ہیں صرف انعکاس کرنے والا ادب کم تر درجے کا ادب ہوتا ہے وہ محض انفارمیشن دے رہا ہوتا ہے۔ ادب محض انفارمیشن دینے والا مظہر سمجھنا ترقی پسندوں کا نظریہ نہیں ہے۔ ادب کی انفارمیشن تھیوری والے لوگ کوئی اور ہیں ۔ ترقی پسندوں کا نظریہ حقیقت کا انعکاس کرتے ہوئے اسے تبدیل کر کے پیش کرنا ہے اور یہی تبدیلی تخلیقی پہلو ہوتی ہے۔مگر ادب میں یہ تبدیلی مادی سطح پر نہیں بلکہ آئیڈیل سطح پر ہوتی ہے کہ موجودہ حقیقت سے آگے کیا ہے؟آپ حقیقت کو جتنا گہرا جانیں گے اس سے اگلا بہتر خواب بھی دیکھ سکیں گے یا اس کے امکانات کو دیکھ سکیں گے۔ میں اس موقع پر فنی روحانیت اور فنی حقیقت پسندی کی بحث سے جان بوجھ کر گریز کر رہا ہوں یہ مخصوص فنی طریقوں کی بحثیں ہیں۔

اس وقت ادب کی جنرل تھیوری پر بات کر رہا ہوں کہ اس پر ترقی پسندوں کی اپروچ کیا ہے؟ بہر حال تخلیق کے مسئلہ میں پھر وہی فلسفے کا بنیادی مسئلہ آجاتا ہے کہ اگر آپ خارجی معروض کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی تخلیق کا ماخذ کیا ہے ۔معروض کو میٹریل یا آئیڈیل سطح پر تبدیل کرنا ہی تخلیق ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی اس میں دکھ کا اظہار بھی ہو سکتا ہے اور خوشی کا بھی_____ ادب میں دکھ کا اظہار بھی ایک جمالیاتی اظہار کے ساتھ آتا ہے۔ ترقی پسندوں کا زور چونکہ عمل پر ہے اس لئے وہ فعال جذبات پر انفعالی جذبات یعنی افسوس، آہوں اور دکھ بھری کیفیت کے مقابلے میں زیادہ زور دیتے ہیں۔ یہ فعال جذبات والی کیفیات ان کی ترجیح رہے ہیں کیوں کہ مسئلہ حقیقت کو تبدیل کرنا ہے مگر ان کے نزدیک جس ادب میں انفعالیت پسندانہ احساسا ت و جذبا ت کااظہار ہوتا ہے اور اگر وہ فنی و جمالیاتی تقاضے پورا کرتا ہے تو محض انفعالیت پسندانہ احساسات و جذبات کی وجہ سے غیر ادبنہیں ہو جاتا۔ بہر حال فعال جذبات پر زور دینے کے باوجود ترقی پسند نظریۂ ادب کے مطابق ادب فوری نتیجہ دینے والی چیز نہیں ہے۔ یہ خارجی حقیقت کو براہ راست بدلنے والی چیز نہیں ہے۔ کیوں کہ ادب کوئی مادی یا خارجی ایکٹوتی نہیں بلکہ ایک ذہنی یا آئیڈیل ایکٹوٹی ہے۔

ایک اور مسئلہ ادب اور آئیڈیالوجی کے آپس کے تعلق کا ہے۔ جب ہم آئیڈیالوجی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کی صرف ایک شکل ہوتی ہے جو شعور کی ساخت کے لحاظ سے ایک عقلی منطقی شکل ہے مگر ساخت کے لحاظ سے شعور کی تین شکلیں ہیں:
ایک حسی شعور کی، دوسری عقلی منطقی شعور کی،اور تیسری تخیلی شعور کی۔
عقلی منطقی شعورکی سطح پر استدلال کے ساتھ آئیڈیالوجی کی تشکیل تعقلات کی ہوتی ہے اور یہ کام ماہرین کرتے ہیں ۔یہاں آئیڈیالوجی ان تصورات و،خیالات و نظریات کا نظام بن کر آتی ہے جو کسی گروہ یا طبقے کے مفادات کی حفاظت یا حصول کے مواد کو باقائدہ علمی صورت عطا کرتا ہے لیکن حسی شعور اور تخیلی شعور کی سطحیں آئیڈیالوجیکل شعور سے عاری نہیں ہوتیں ۔ ابتدا میں جب انسانی سماج میں تقسیم کار کم تھی تو اس کا شعو ر بھی غیر تفریقی تھا اور شعور کی تینوں شکلیں آپس میں گھلی ملی تھیں۔ بلکہ عقلی منطقی شعور پر حسی شعور اور تخیلی شعور حاوی تھا ۔آئیڈیالوجی کا اظہار زیادہ تر انہی دو شکلوں میں ہوتا تھا۔ مثلاً اساطیر میں بھی آئیڈیالوجی موجود ہوتی ہے یہی حال اد ب کا ہے۔ آئیڈیالوجی کو منظوم کرنے کا نام ادب نہیں ہے۔ ادب زبان کے وسیلے سے جذبہ آمیز تخیل کی فنی و جمالیاتی سطح پر حسی تجسیم ہے اور اس میں شعور کی ساخت کی تینوں شکلیں کار فرما ہوتی ہیں لیکن ادب کی ہیئت میں زبان کے لحاظ سے عقلی منطقی سطح کی آئیڈیالوجی کا اصطلاحاتی زبان میں اظہار نہیں ہوتا ۔یہاں آئیڈیالوجی حسی تمثالوں اور کرداروں میں رونما ہوتی ہے۔ اس ساری با ت کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آئیڈیالوجیکل شعور حسی اور تخیلی صورت میں ظہور ہوتا ہے ۔اس میں جذبہ آمیز تخیل بڑا کردار ادا کرتا ہے لیکن خود تخیلی بھی تعقلات کے بغیر کام نہیں کرتا۔ ادب میں آئیڈیالوجی کے مخالف جب آئیڈیالوجی کی نفی کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر اس کی صرف ایک شکل عقلی منطقی شعور کی شکل ہوتی ہے وہ اس کی دوسری حسی اور تخیلی شکلوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ ادب خود ایک آئیڈیالوجیکل فارم بھی ہے۔

کسی نہ کسی آئیڈیا سے جب انسان کسی شئے کا ادراک کرتا ہے تو اس ادراک کی سمت نمائی اس کی جہاں بینی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ادراک کے عمل میں کسی مشیر کی قدر پیمائی بھی کررہا ہوتا ہے۔ ادراک محض کوئی شئے نہیں ہے حتیٰ کہ سائنس دان بھی ادراک کے عمل کے دوران جذبے او ر تخیل سے خالی نہیں ہوتا لیکن اس کی ترجیح صرف یہ ہوتی ہے کہ خود معروض کی کیا خصوصیات یا عناصر ہیں۔ وہ اپنی داخلی کیفیات کو ایک طرف کر دیتا ہے لیکن یہی داخلی کیفیات فن کی اور ادب کی تخلیق کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی شمولیت کے بغیر ادب ادب نہیں بن پاتا۔گویاادب میں محض معروض کی خصوصیات کا جاننا یا اس کے بارے میں انفارمیشن حاصل کرنا کافی نہیں ہے۔ ادیب اس کی معنویت یعنی اقداری معنویت کو بھی دیکھتا ہے۔ کسی شئے کا ادراک کرتے ہوئے انسان کی پسند و نا پسند کی مختلف صورتیں اس کے ادراک کے عمل میں شامل ہوتی ہیں۔ ان اقدار میں جمالیاتی قدر بھی شامل ہوتی ہے۔ ادب بیک وقت ادراک آمیز اور قدر آمیز ہوتا ہے۔ خالص جمالیاتی شعور اور خالص جمالیاتی ادب نام کی کئی شئے نہیں ہو سکتی ۔ کیوں کہ جمالیات کسی مظہریا عمل یا کسی اور کیفیت کے ساتھ اپنا وجود رکھتی ہے۔ تاہم ادب و فن میں فنی و جمالیاتی پہلو فوقیت ضرور رکھتا ہے اور اس فوقیت کے باعث یہ فن غیر فن سے اور ادب ،غیر ادب سے ممتاز ہوتا ہے۔

ترقی پسندانہ نقطہ نظر سے نوعِ انسانی نے جو فن تخلیق کیا ہے وہ پہلے بھی مختلف انسانی نسلوں کے خوابوں اور اُمنگوں کی تشکیل کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا اور اس تشکیل کے سلسلۂ عمل میں اس کا سماجی آئیڈیل بھی اظہار پاتا ہے اور اس کا جمالیاتی آئیڈیل بھی۔ جمالیاتی آئیڈیل سے مراد اپنی ساری جسمانی اور ذہنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے حوالے سے مثالی فرد ہوناہے ۔ ہر تخلیق کار کا کوئی نہ کوئی جمالیاتی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے جو اس کے ساتھ چلتاہے اور اس کے ادب کو گہرے طور پر متا ثر کرتا ہے۔ تخلیق کار اس کی تجسیم سماج میں دیکھنا چاہتا ہے جبکہ وہ خود اس کی تجسیم کسی نہ کسی طرح اپنے اد ب میں کرتا ہے۔ اقبال نے بھی مرد مومن کی صورت میں اپنا جمالیاتی آئیڈیل تشکیل دیا۔ اقبال کی اس تشکیل پر اصولی طور پر کوئی اعتراض کرنا جائز نہیں ہے۔ کم از کم ترقی پسندوں کے نقطہ نظر سے____ کیوں کہ وہ خود جمالیاتی آئیڈیل کی تشکیل کے اصولی طور پر قائل ہیں۔

اقبال سے کوئی اختلاف ہو سکتا ہے تو اس کے اس جمالیاتی آئیڈیل کی بعض خصوصیا ت سے ہو سکتا ہے۔ ترقی پسندوں نے کوئی اصطلاحی نام رکھے بغیر اپنا جمالیاتی آئیڈیل تشکیل دیا مثلاً ترقی پسندوں نے شاعری میں فرہاد، منصور اور سرمد وغیرہ کے اوصاف کو ملا کر ان کا ایک جمالیاتی آئیڈیل ابھاراہے جو فطرت کو تسخیر کرنے والا ، معاشرے کو بدلنے والا، محنت کرنے والا اور اپنی ساری تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والا مثالی فرد ہے۔ترقی پسندوں کے اپنے نقطہ نظرمیں یہ بات شامل ہے کہ فرد کی شخصیت کے سارے پہلوؤں کی آزادانہ اور ہم آہنگ نشوونما ہونی چاہیے۔ ہمارے جن پرانے ترقی پسند وں نے اقبال پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس نے اپنا جمالیاتی آئیڈیل کیوں تشکیل دیا۔ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا کوئی ادیب بھی جمالیاتی آئیڈیل کے بغیر نہیں ہوتا۔ افسانوی اد ب میں یہ جمالیاتی آئیڈیل زیادہ نمایاں ہو کر آتا ہے۔ سماجی آئیڈیل کے ساتھ جمالیاتی آئیڈیل کی بھی نفی کرنا جدیدیت پسندوں کا رویہ ہے لیکن اس نفی کا دعویٰ کرنے کے باوجود ان کے اد ب میں بھی جمالیاتی آئیڈیل ابھر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا جمالیاتی آئیڈیل تنہائی، بے چارگی اور انفعالیت کا مارا ہوا ہوتا ہے۔ جو صرف سہتا اور سوچتا ہے مگر کرتا کچھ نہیں۔ ان کے مقابلے میں اقبال اور ترقی پسندوں کا جمالیاتی آئیڈیل ایک فعال شخصیت ہے۔