عرب سماج میں غلامی کا مخصوص ادارہ: ایک سماجی تنقیدی زاویہ

عرب سماج میں غلامی کا مخصوص ادارہ

عرب سماج میں غلامی کا مخصوص ادارہ: ایک سماجی تنقیدی زاویہ

از، محمد مبشر نذیر

اہل عرب میں بھی غلامی پائی جاتی تھی۔ ان کے ہاں غلامی سے متعلق کچھ ایسے ادارے موجود تھے جن کی مثال دنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ چونکہ عرب میں کوئی ایک مرکزی حکومت قائم نہ تھی بلکہ الگ الگ قبائلی ریاستیں پائی جاتی تھیں، اس وجہ سے غلامی کی عملی صورتیں مختلف قبائل میں مختلف تھیں۔
قبل از اسلام، عربوں کی تاریخ سے متعلق ہمارے پاس دیگر اقوام کی نسبت بہت زیادہ مواد موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کو اپنے نسب اور اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کو محفوظ کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان کارناموں کو وہ سینکڑوں اشعار پر مشتمل نظموں اور خطبات کی صورت میں بیان کرتے اور اپنی محفلوں میں بکثرت ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ اشعار کو حفظ کرنے کا رواج ان کے ہاں غیر معمولی درجے میں پایا جاتا تھا۔ image-127انہی اشعار اور عربوں کی دیگر روایات کی مدد سے عربوں کی تاریخ مدون کی گئی۔
اس ضمن میں سب سے اعلی درجے کی کاوش ڈاکٹر جواد علی کی “المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام” ہے جو آٹھ جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ یہ تاریخ کم و بیش چار ہزار صفحات پر محیط ہے۔ انہوں نے غلامی سے متعلق مباحث کو جلد 4 میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
غلاموں کا طبقہ عرب معاشرے میں “حقیر ترین” طبقہ تھا۔ عربوں کے زیادہ تر غلام افریقہ سے لائے گئے تھے۔ ان کے علاوہ سفید رنگت والے رومی غلام بھی ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔ یہ زیادہ تر عراق یا شام سے لائے جاتے تھے۔
غلاموں کے لئے لفظ “عبد” استعمال کیا جاتا تھا جس کا استعمال اپنے حقیقی مفہوم میں خدا کے مقابلے پر اس کے بندے کے لئے کیا جاتا تھا۔ مجازی طور پر آقا کو اس کے غلام کا خدا تصور کیا جاتا تھا۔ مالک کے لئے مجازی طور پر “رب” کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
ان غلاموں کی خرید و فروخت جانوروں یا بے جان اشیاء کی طرح کی جاتی تھی۔ مالک کو اپنے غلام پر مکمل حقوق حاصل تھے۔ ملکیت کا یہ حق مقدس سمجھا جاتا تھا۔ غلام کی کسی غلطی پر مالک اسے موت کی سزا بھی دے سکتا تھا۔ ابو جہل نے اپنی لونڈی سمیہ رضی اللہ عنہا کو اسلام قبول کرنے پر اپنے ہاتھوں سے موت کی سزا دی تھی۔ زیادہ غلاموں رکھنے کا مقصد آقاؤں کے جاہ و جلال اور دولت کی نمائش ہوا کرتا تھا۔ بعض امراء کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں غلام موجود تھے۔
غلاموں کی ایک بڑی تعداد لونڈیوں پر بھی مشتمل تھی۔ انہیں زیادہ تر گھر کے کام کاج کے لئے رکھا جاتا۔ آقا کو لونڈی پر مکمل جنسی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے لیکن اگر آقا کسی لونڈی کی شادی کر دے تو پھر وہ خود اپنے حق سے دستبردار ہو جایا کرتا تھا۔ بہت سے آقا اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کروایا کرتے تھے اور ان کی آمدنی خود وصول کیا کرتے تھے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ شب بسری کے لئے کسی دوست کو لونڈی عطا کر دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔
عربوں کے ہاں غلاموں کی باقاعدہ تجارت ہوا کرتی تھی۔ ان کے ہاں ایک باقاعدہ طبقہ موجود تھا جس کا کام ہی غلاموں کی تجارت کرنا تھا۔ اس طبقے کو “نخّاس” کہا جاتا تھا۔
عربوں میں لڑائی جھگڑا اور بین القبائل جنگیں عام تھیں۔ ان جنگوں میں فاتح، نہ صرف مفتوح کے جنگی قیدیوں کو غلام بناتا بلکہ اس قبیلے کی خواتین اور بچوں کو بھی غلام بنانا فاتح کا حق سمجھا جاتا تھا۔ اس حق کو کہیں پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا سوائے اس کے کہ مفتوح قبیلہ دوبارہ قوت جمع کر کے اپنا انتقام لے سکے۔
قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث بھی لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔
کسی بستی پر حملہ آور ہو کر اسے غلام بنا لینے کا رواج بھی ان کے ہاں عام تھا۔ بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لینے کا رواج عام نہیں تھا لیکن بہرحال پایا جاتا تھا۔
غلاموں کی اولاد بھی غلام ہی ہوا کرتی تھی۔
غلاموں کو خریدنے کے علاوہ جوئے میں بھی حاصل کیا جاتا تھا۔
ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے غلام وراثت میں اسے کی اولاد کو منتقل ہو جایا کرتے تھے۔
غلام خطرے کی صورت میں آقاؤں کی حفاظت کا فریضہ بھی سر انجام دیا کرتے تھے۔
اکثر مالکان غلاموں کے ساتھ نہایت ہی برا سلوک کیا کرتے تھے۔ غلاموں کو مال رکھنے کی اجازت بھی نہ تھی۔ فصل کٹنے کے وقت غلام کو اپنا حصہ بھی آقا کے حضور پیش کرنا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی جنگیں غلام لڑا کرتے تھے اور جنگ میں ملنے والا مال غنیمت آقا کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی جنگوں میں غلام مخالف فریق سے مل کر اپنے مالکوں سے غداری کر لیا کرتے تھے۔
صحرائی دیہاتوں میں بھی غلام ہوا کرتے تھے۔ یہ عام طور پر اپنے مالکوں کے لئے گلہ بانی کیا کرتے۔ ان کی حالت شہری غلاموں کی نسبت عام طور پر بہتر ہوتی تھی کیونکہ ان کے کام کی نوعیت شہری غلاموں کی نسبت اتنی سخت نہیں تھی۔
بعض غلاموں کو ان کے مالک یومیہ بنیادوں پر طے شدہ معاوضے پر آزاد چھوڑ دیا کرتے تھے۔ یہ غلام محنت کرتے اور اپنی کمائی میں سے خراج مالک کو ادا کر دیتے۔
بعض غلام زرعی زمینوں سے وابستہ تھے۔ یہ کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے۔ ان غلاموں کو زمین کے ساتھ ہی اگلے مالک کی طرف منتقل کر دیا جاتا تھا۔

غلاموں کے علاوہ کچھ نیم غلام قسم کے طبقات بھی اہل عرب کے ہاں پائے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک طبقہ “الادم” یا “الادوم” پایا جاتا تھا۔ یہ مزارعین کا طبقہ تھا جو خود زمین کے مالک نہ ہوا کرتے تھے بلکہ امراء کی جاگیروں پر کام کرتے اور انہیں زمین کا کرایہ ادا کیا کرتے تھے۔ اپنے حالات کے باعث یہ نہایت ہی غریب ہوا کرتے تھے لیکن ان کی حالت بہرحال غلاموں سے بہتر تھی کیونکہ یہ اپنے مالک کی ملازمت ترک کر کے دوسری جگہ جانے کا اختیار رکھتے تھے۔ ان کی مزید خصوصیات یہ ہیں:
بعض اوقات جاگیردار، زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار کو اپنے لئے مخصوص کر لیتے۔ ایسا عام طور پر اس زمین کے سلسلے میں کیا جاتا تھا جو نہر یا برساتی نالے کے قریب واقع ہوا کرتی تھی۔ اس طریقے سے اچھی زمین کی فصل جاگیردار لے جاتا اور خراب زمین کی تھوڑی سی پیداوار مزارعوں کے حصے میں آیا کرتی۔

نیم غلاموں میں ہاتھ سے کام کرنے والے بھی شامل تھے۔ زیادہ تر یہ لوگ غلام ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض آزاد بھی ہوتے تھے۔ عرب معاشرے میں طبقاتی تقسیم بہت شدید تھی۔ صنعتیں نہایت ہی معمولی درجے کی تھیں اور ہاتھ سے کام کرنے والوں کو نہایت ہی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ نائی، موچی، قلی یا اس قسم کے دیگر کام کرتے۔ عرب خود ان کاموں کو پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ کام بالعموم غلاموں، غیر ملکیوں اور یہودیوں کے سپرد تھے۔

اعلی طبقے کے لوگ ہاتھ سے کام کرنے والے کی کمائی کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور ان کے ہاں یہ بڑی شرم کی بات تھی کہ کوئی انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی کسی ایسے شخص سے مالی مدد لے جو ہاتھ سے کما کر کھاتا ہو۔
ادنی طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص سے اعلی طبقے کا کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا اور اس معاملے میں پورا معاشرہ نہایت ہی حساس تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیرہ کے بادشاہ نعمان بن منذر کو اس بات کا طعنہ دیا جاتا رہا کہ اس کا نانا ایک چمڑہ رنگنے والا تھا۔

ہاتھ سے کام کرنے والوں کو حقیر سمجھے جانے کا بھی یہی معاملہ تھا۔ بخاری (حدیث 4020) کے مطابق ابوجہل کو مرتے وقت اس بات کا افسوس رہا کہ اسے کسانوں نے قتل کیوں کیا کسی سردار نے قتل کیوں نہیں کیا۔
غلامی کے معاملے میں عربوں کے ہاں ایک ایسا ادارہ پایا جاتا تھا جس کی مثال دنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی غلام کو آزاد کرتا تو اسے اپنے خاندان کا ہی ایک فرد مان لیا کرتا تھا۔ اس رشتے کو “ولاء” اور آزاد کردہ غلام کو “مولی” جمع “موالی” کہا جاتا تھا۔ بعض اوقات آزاد کردہ غلام کو یہ اختیار بھی دے دیا جاتا کہ وہ اپنی ولاء، سابق مالک کی بجائے کسی اور سے قائم کر لے۔ اس رشتے کو “ولاء بالعتق” کہا جاتا تھا۔

ولاء کے اس رشتے سے سابق مالک کو فائدہ یہ ہوتا کہ وہ غلام کے مرنے کے بعد اس کا وارث بنتا اور غلام کو فائدہ یہ ہوتا کہ اس کی اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچا ہو تو اس کا جرمانہ ادا کرنا سابقہ مالک اور اس کے قبیلے کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔
ولاء کے اس تعلق کی غلامی کے علاوہ ایک شکل اور بھی تھی۔ عربوں میں اپنی عربیت اور قبیلے سے متعلق انتہا درجے کا تعصب پایا جاتا تھا۔ اگر کوئی غیر ملکی یا کسی دوسرے قبیلے کا فرد ان کے درمیان آ کر رہنا پڑتا تو اس کے لئے لا زم تھا کہ وہ قبیلے کے کسی فرد کے ساتھ ولاء کا رشتہ قائم کرے۔ ایسے لوگوں کو “موالی بالعقد” کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ جس عرب سے ولاء کا رشتہ قائم کیا کرتے تھے، عام طور پر وہ بہت سے حقوق کے حصول کے لئے اس کے محتاج ہوتے۔ اس وجہ سے اس قسم کے موالی بھی کسی حد تک نیم غلامی کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔
مولی خواہ آزاد کردہ غلام ہو یا کسی معاہدے کے تحت مولی بنا ہو، اسے حقیر سمجھا جاتا تھا اور انہیں اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ دینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر مولی کی شادی آزاد شخص کی بیٹی سے کر دی جاتی تو اس کا قبیلہ خود کو رسوا سمجھنے لگتا تھا۔ مشہور شاعروں ابو البجیر اور عبدالقیس نے جب اپنی بیٹیوں کی شادی اپنے موالی سے کی تو ان کی باقاعدہ ہجو کہی گئی۔
عربوں میں نیک سیرت افراد کی کمی بھی نہ تھی۔ یہ لوگ غلاموں کی حالت زار پر کڑھتے اور ان سے اچھا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس غلاموں کو آزاد کرنے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہ تھا کہ غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جائے۔ اس کی ایک مثال سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے دور جاہلیت میں ایک سو غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔
غلاموں کی آزادی کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ وہ اپنی آزادی خود خرید سکیں۔ ایسا کرنے کے لئے ان کے مالک کی اجازت ضروری تھی۔ اگر مالک اس بات پر تیار ہو جاتا تو غلام اپنی آزادی کو خرید کر قسطوں میں ادائیگی کر سکتا تھا۔ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ یہ رواج عرب میں بہت ہی کم تھا۔

غلاموں کی آزادی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مالک اپنے کسی غلام کو وصیت کر دیتا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔ ایسے غلام کو پھر وراثت میں تقسیم نہ کیا جاتا بلکہ مالک کے مرنے کے ساتھ ہی وہ آزاد ہو جایا کرتا تھا۔

“ام ولد” کا تصور بھی اسلام سے پہلے کے عربوں میں پایا جاتا تھا۔ ام ولد ایسی لونڈی کو کہا جاتا تھا جو اپنے مالک سے بچہ پیدا کرے۔ ایسی لونڈی کی خرید و فروخت بھی کی جاتی تھی۔ اگر مالک اس لونڈی کو فروخت نہ کرتا تو مالک کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہو جایا کرتی تھی۔
اسلام سے قبل کے دور میں غلامی کی اس صورتحال کے جائزے سے یہ نتائج نکل سکتے ہیں:

ظہور اسلام کے وقت دنیا میں غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ غلام عرب، روم، افریقہ، ایران، ہندوستان، وسط ایشیا، چین میں موجود تھے۔
بعض ممالک میں غلامی اپنی بد ترین شکل میں موجود تھی اور بعض ممالک میں غلاموں کے حالات نسبتاً بہتر تھے۔ عرب اور روم کے غلاموں کی حالت پوری دنیا میں سب سے بد تر تھی۔
دنیا کے عام مذاہب اگرچہ غلامی کو مکمل طور پر ختم تو نہ کر سکے لیکن انہوں نے بالعموم غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے کی تلقین کی۔ جہاں جہاں مذہبی تعلیمات کے تحت حکومتیں قائم ہوئیں، وہاں عملی اقدامات بھی کیے گئے۔

سید نا موسی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شریعت میں، انسانی کی معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ، غلامی کے خاتمے کے لئے قوانین بنائے گئے اور ان پر بڑی حد تک عمل بھی کیا گیا۔ بعد کے ادوار میں ہونے والی بعض تبدیلیوں کے باعث ان قوانین کے اثر کو محدود کر دیا گیا۔