کیا قرآن کریم کا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟

کیا قرآن کریم کا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟

(اجمل کمال)

کیا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کی ایک معنویت تو وہ ہے جو ادبی تحریروں پر صادق آ سکتی ہے؟ ۔ چنانچہ جب غیرعربی زبانوں میں قرآن کے ترجمے کی نوبت آئی تو اس سے متعلق کئی سوالات پر اختلاف رائے پیدا ہوا۔ ان بحثوں میں تین سوالات زیادہ اہم تھے:

۱) کیا قرآن کا کسی غیرعربی زبان میں ترجمہ ممکن ہے؟
۲) کیا قرآن کا ترجمہ شرعی اعتبار سے جائز ہے؟
۳) کیا کوئی غیرعربی ترجمہ قرآن کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟

روٹلج انسائیکلو پیڈیا آف ٹرانسلیشن اسٹڈیز ۱۹۹۸ء میں قرآن کے ترجمے کے موضوع پر حسن مصطفی کا لکھا ہوا مضمون شامل ہے جس سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:2

(۱) قرآن کے ترجمے کے جواز کے مسئلے کو اس کے قابلِ ترجمہ ہونے کے نسبتاًعمومی سوال سے علیحدہ کرنا دشوار ہے۔ جو لوگ قرآن کے قطعی ناقابل ترجمہ ہونے کے قائل ہیں وہ اپنے موقف کی واضح حمایت سورۂ یوسف کی آیت 2سے حاصل کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے:

“We have sent it down/as an Arabic Qur’an”

آج بھی ایک طاقتور اور بااثر مکتب فکر ایسا موجود ہے جس کی رائے ہے کہ قرآن کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور جتنے بھی ’ترجمے‘ موجود ہیں وہ سب ناجائز ہیں۔ بہت سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن کا ترجمہ کرنا ہی ہو تو مترجم کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔ …تاہم قرآن کے ترجمے کے ناجائز ہونے کے عقیدے کے مخالفین بھی ہمیشہ موجود رہے ہیں، یہاں تک کہ اسلام کے قرون اولیٰ میں بھی موجود تھے۔ عراق سے تعلق رکھنے والے محقق اور عالم دین امام ابوحنیفہ (c.700-67) مانتے تھے کہ قرآن کی تمام آیات کاکسی غیرزبان میں ترجمہ کرنا جائز ہے لیکن ’’اس ترجمے کو ایک جلد میں اس طرح شائع کرنا جائز نہیں جس میں اس کے مقابل اصل عربی آیات درج نہ ہوں‘‘۔

امام ابوحنیفہ نے مزید یہ بھی اعلان کیا کہ ’’جو شخص عربی نہ جانتا ہواس کے لیے نماز میں عربی الفاظ کے مفہوم کا اپنی زبان میں اظہار کرنا جائز ہے‘‘۔ لیکن روایت کے مطابق بعد میں انھوں نے اپنے اس غیرروایتی موقف کو ترک کر دیا… اور اس آرتھوڈوکس خیال کو اپنا لیا جس کی رو سے وہ شخص جو عربی میں قرآن پڑھنے سے قاصر ہو، ناخواندہ تصور کیا جاتا ہے۔

۲) قرآن کے ترجمے کی ہر کوشش بنیادی طور پر ایک قسم کی تشریح ہوتی ہے، یا کم از کم متن کی کسی واحد تفہیم پر مبنی ہوتی ہے، چنانچہ ایک مخصوص نقطۂ نظر کو بڑھاوا دیتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مترجم غیرمسلم مترجم کے مقابلے میں قابل ترجیح سمجھا جاتا ہے۔

۳)قرآن کے انگریزی مترجم محمد مارماڈیوک پکتھال نے بیان کیا ہے کہ (اسلامی علوم کے مستند، روایتی مرکز واقع قاہرہ) جامعہ الازہر کے ریکٹر نے انگریزی ترجمے کی صرف اس وقت اجازت دی جب انھیں بتایا گیا کہ پکتھال اپنے ترجمے کو ’’القرآن‘‘ نہیں بلکہ ’’معانی القرآن‘‘ کا نام دیں گے۔

۴) 1925سے 1936تک کے عرصے میں مصر میں قرآن کے ترجمے کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال پر خاصی گرم بحث ہوئی۔ الازہر کی ممتاز شخصیات نے اس عمل کے حق میں اور اس کے خلاف شدید خیالات ظاہر کیے۔ ان میں سے بیشتر ابتدا میں قرآن کے ترجمے کے سرے سے ہی مخالف تھے اور بہت سوں نے محمد علی نامی ایک مسلمان کے 1917یا 1918میں شائع شدہ ترجمۂ قرآن پر، جو مصر میں انھی دنوں پہنچا تھا، پابندی لگانے بلکہ اسے جلا دینے کی تجویز کی حمایت کی۔

۵) 1936میں جامعہ الازہر کے ریکٹر شیخ مصطفی المراغی نے اس وقت کے وزیراعظم کے نام اپنے خط میں باقاعدہ اعلان کیا کہ قرآن کے معانی کو کسی دوسری زبان میں بیان کرنے کو قرآن نہیں کہا جا سکتا۔…شیخ مراغی کے اس موقف پر آخرکار فتویٰ جاری کیا گیا کہ شرعی نقطۂ نگاہ سے قرآن کا ترجمہ جائز ہے۔ اسی سال 16اپریل کو وزراء کی کاؤنسل نے اس فتوے کی توثیق کی۔ اس فتوے میں یہ شرط شامل تھی کہ ایسے کسی بھی ترجمے کو ترجمۂ قرآن نہ کہا جائے بلکہ ’قرآن کی ایک تعبیر کا ترجمہ‘‘ یا’’فلاں زبان میں قرآن کی تعبیر‘‘ کا نام دیا جائے۔

۶) مذہبی رہنماؤں کے اعلانات سے قطع نظر قرآن اور عربی زبان کی وہ مخصوص قسم جس میں وہ وحی کیا گیا، ان دونوں کے درمیان مضبوط ربط کے معنی یہ ہیں کہ وحی کردہ کتاب اور اس کے کسی بھی ترجمے کے درمیان (خواہ وہ اجازت لے کر کیا گیا ہو یا بلااجازت) فرق ہمیشہ پیش نظر رہا۔ چنانچہ جو لوگ انگریزی جیسی کسی زبان میں انجیل پڑھتے ہیں، ممکن ہے انھیں کسی قدر یہ احساس ہو کہ پڑھا جانے والا متن ایک ترجمہ ہے جو کسی اصل متن سے کیا گیا ہے، لیکن اس احساس سے اس متن کے استناد یا اس کے اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

کیا قرآن کریم کا ترجمہ اصل کا قائم مقام ہو سکتا ہے؟

اس کے برعکس کسی مسلمان کی نگاہ میں قرآن اور اس کے کسی ترجمے کے درمیان وہی فرق ہے جو خدا بحیثیت مصنف، مختار اور ماخذ اور انسان بحیثیت محض ایک مترجم /معبر کے درمیان ہے۔ پکتھال کا کہنا ہے کہ کسی غیرعرب مسلمان کو کبھی خیال تک نہ گزرا ہو گا کہ قرآن کے ان کی زبان میں ترجمے کو وہی درجہ دے دیا جائے جو انگریزی بولنے والے پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے نزدیک انجیل کے انگریزی ترجمے کو حاصل ہے، یعنی اصل متن کا متبادل۔

برصغیر کی مختلف زبانوں کی طرح اردو میں بھی قرآن کے متعدد ترجمے کیے گئے اور تفسیریں لکھی گئیں۔ تاہم ترجمے اور تفسیر کا یہ عمل محض مذہبی عالموں تک محدود رہا۔انیسویں صدی میں، اور خصوصاً 1857کے بعد، ٹیکنالوجی میں ہونے والی چند نمایاں ترقیوں اور نوآبادیاتی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے بعض اقدامات کے نتیجے میں سماجی تبدیلی کے ایک ایسے عمل کی شروعات ہوئی جو بہت گہرے، تقریباً انقلابی، نتائج پیدا کرنے کا امکان رکھتا ہے۔

اجتماعی تعلیم کے اداروں اور چھَپے ہوے لفظ کے رائج ہونے سے جو منطق پیدا ہوئی اس کا تقاضا یہی تھا کہ علم جو اس وقت تک ایک محدود اقلیت کی ملکیت تھا وہ معاشرے کے ہر فرد کی دسترس میں آجائے۔ اور ظاہر ہے کہ علم پر اجارہ داری کا مطلب سیاسی طاقت پر اجارہ داری تھا، اور اس کے خاتمے کے معنی اس کے سوا کچھ اور نہ نکل سکتے تھے کہ سیاسی طاقت بھی رفتہ رفتہ انسانوں کی اس بھاری اکثریت کی گرفت میں آ جائے جسے اس وقت تک، ذات پات، معاشی طبقے اور جنس کی بنیاد پر، انسانیت کے نچلے درجے میں رکھا جاتا رہا تھا۔ یہ انسانوں کی معاشرتی تاریخ میں آنے والی ایسی تبدیلی تھی جس سے کترا کے گزرنا کسی بھی طبقے یا مکتب فکر کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس اہم اور بنیادی معاشرتی تبدیلی کا ساتھ دینا یا پھر اس کا سامنا کرنا نا گزیر تھا۔
سیاسی اقتدار رکھنے والے مقامی طبقوں کے زوال کے ساتھ ساتھ ان سے اور ان کے درباروں، ریاستوں اور جاگیروں سے وابستہ ان افراد کی زندگیاں بھی متاثر ہوئیں جو خواندگی اور تحریر تک رسائی رکھتے تھے اور جن کی معاش کا دارومدار عموماً تدریس اور تعلیم کی سرگرمیوں پر ہوتا تھا۔ ان میں ایک طرف مسلمان اشراف (اکثر سادات) اور دوسری طرف ہندوؤں کی اونچی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد (برہمن اور کائستھ) شامل ہوتے تھے۔

عالموں اور استادوں کو بادشاہوں، صوبے داروں، رئیسوں اور امیروں کی بطور اتالیق ملازمت اختیار کرنی پڑتی تھی۔ اس ذریعۂ معاش کے لیے خود کو تیار کرنے کے مراحل یہ لوگ روایتی مکتبوں میں مکمل کرتے تھے۔ چھاپہ خانے کے مروج ہونے کے بعد یہی لوگ تھے جنھوں نے تصنیف وتالیف اور صحافت و ادارت کے شعبوں میں نمایاں کردار سنبھالا۔

اسے بھی ملاحظہ کیجئے: معاصر اسلامی نظریہ کے بعض اہم مسائل

مزید مطالعہ کیجئے: بائبل کے ترجمہ کی کہانی

ان میں جو لوگ مذہبی عالم تھے ان کی سرگرمیوں کا رخ اب اس آبادی کی طرف مڑ گیا جو نوآبادیاتی حکومت کی عام تعلیم کی پالیسی کے نتیجے میں خواندہ ہو گئے تھے اور چھاپہ خانے کے رواج کے باعث کتاب، رسالے اور اخبار کی صورت میں چھپے ہوے لفظ تک رسائی پا سکتے تھے۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی تھی جس سے علم اور اطلاعات کی ترسیل کا پورا عمل اور اس کی اخلاقیات بدل کر رہ گئی۔

اس کے علاوہ ریل اور ڈاک کے نظام کے قیام سے معاشرے میں تبدیلی کا عمل اور تیز ہو گیاتھا۔ اس نئی صورت حال میں مذہبی عالموں نے جو حکمت عملی اختیار کی اس کو سمجھنے کے لیے دارالعلوم دیوبند اور خصوصاً مولانا اشرف علی تھانوی (1863-1943) کی سرگرمیوں کا مطالعہ نا گزیر ہے۔ اگرچہ عام طور پر علی گڑھ اور دیوبند کو ایک دوسرے کی ضد خیال کیا جاتا ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان اشتراک کے پہلو بھی نہایت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر چھاپہ خانے، ڈاک اور ریل کے بغیر نہ سرسید کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ مولانا تھانوی کا۔

مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا تھانوی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کانپور کی ایک مسجد میں ملازمت سے کیا، لیکن کچھ عرصے بعد تھانہ بھون میں مقیم ہو گئے اور آزادانہ کام کرنے لگے۔ اپنے پیش رو عالموں کے برعکس، اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق، نہ صرف انھوں نے برصغیر کے مختلف مقامات کا سفر کر کے وعظ کہنے کا طریقہ اختیار کیا بلکہ ایسی کتابیں اور رسالے تصنیف کیے جن میں عام لوگوں سے خطاب ہوتا تھا اور بذریعۂ ڈاک ان سے براہ راست خط و کتابت بھی ان کی سرگرمی کا ایک بڑا جز تھا۔

لوگوں کو اپنے نقطۂ نظر کا قائل کرنے کے لیے جدید ذرائع استعمال کرنا اپنی جگہ، لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ جہاں تک تہذیبی اور سیاسی نقطۂ نظر کا تعلق ہے سرسید اور مولانا تھانوی دونوں اپنے اپنے انداز میں قدامت پسند تھے، اگرچہ موخرالذکر کی قدامت پسندی نسبتاً زیادہ راسخ العقیدہ نوعیت کی تھی۔

مولانا تھانوی جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس کے نزدیک قرآن اور دیگر مذہبی متون کی تعبیر کرنا صرف ان افراد کا حق ہے جنھوں نے مقررہ مذہبی تعلیم حاصل کی ہے اور تعبیر و تشریح کی اس سرگرمی کو (جسے وہ خود تعلیم و تبلیغ کہتے ہیں) اپنے کل وقتی کام کے طور پر اختیار کر رکھا ہے۔ اسی لیے قرآن کا ترجمہ براہ راست پڑھنے کے معاملے میں عام لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

جہاں تک اس کل وقتی سرگرمی کو ذریعۂ معاش بنانے کا تعلق ہے، بہت عرصے تک اسے متقدمین کے اس قول کی بنا پر ناجائز تصور کیا جاتا رہا کہ تعلیم قرآن کا معاوضہ لینا ناجائز ہے۔ بعد میں متاخرین میں سے کسی کے قول کی بنیاد پر، جس کی رو سے مخصوص حالات میں بعض شرائط کی قیود میں رہتے ہوے تعلیم قرآن کا معاوضہ لیا جا سکتا ہے، اسے جائز قرار دے دیا گیا۔ پیشہ ور مذہبی عالموں کا پورا طبقہ، جس سے ہم آج واقف ہیں، اسی اجتہاد کے نتیجے میں وجود میں آیا اور مستحکم ہوا، اگرچہ اب ان شرائط کا ذکر مشکل ہی سے سننے میں آتا ہے جن کے تحت اس سرگرمی کو ذریعۂ معاش کے طور پر اختیار کرنا جائز قرار دیا گیا تھا۔

چنانچہ عربی سے ناواقف برصغیر کے مسلمانوں کے حصے میں قرآن کا ترجمہ بھی نہیں بلکہ قدیم تفسیروں کی شرحیں آئیں۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کے پیش نظر انھیں متعدد نئے نئے موضوعات اور مسائل پر مذہبی نقطۂ نظر جاننے کی ضرورت پیش آتی تھی تاکہ وہ اس کی روشنی میں ان معاملات پر اپنے فیصلے کر سکیں جو ان کی زندگیوں کو متاثر کر رہے تھے۔

About اجمل کمال 7 Articles
ajmal kaml