جینیفر رِیسر کی منتخب نظمیں

جینیفر رِیسر کی منتخب نظمیں

ترجمہ: شیراز دستی

جینیفر رِیسر لوزیانا، امریکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ معروف شاعرہ، ترجمہ نگار، تبصرہ نگار، ایڈیٹر، اور مضمون نگار ہیں۔ مگر ان کی بنیادی شناخت ان کی شاعری ہے، جو کلاسیکی سے لے کر معاصر حوالوں، اور مشرق و مغرب کی روائتوں سے آراستہ ہے۔ ان اوارڈ یافتہ شاعرہ کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ان کی ویب گاہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

http://www.jenniferreeser.com/index.html

1
Sonnet 27

شہرزاد’ چمکیلے ریشم سے بنے تکیے کے سہارے سے
حساس شیخ کی خواب گاہ کے شایان شان
داستان گوئی کے تانے بانے بن کر
اپنے آقا کو جگاۓ رکھتی تھی
مگر داستاں یہ بھی ہے کہ پونم کی اک رات کو
شہرزاد نے اس زندگی کا انجام چاہا اور عظمت انسانی کی خواہاں ہوئی
اک مقبرہ مانگا جو بے رحم قانون کے آگے
بیوی کی تابعداری سے کہیں بڑھ کر مصیبت انگیز تھا
سو اب یہ فرض نہیں کرتے کہ
اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کر کےوہ اسے
کسی عجب سے سائنسی ادب کے تانوں بانوں سے بنی
کئی داستانوں میں نہلا کرالف لیل ولیل کی
پر کشسش اور نازک اندام گھڑیوں کی خیرات پا سکتی تھی
جو آقا کی زبان کی شمسی نبض پر قمری مرحلوں کی مانند بیت جاتیں

2
سلویا پلیتھ کی مرغی سڑک کے اُس پار

نہیں جھکوں گی نہیں جھکوں گی
اس پرانے ڈربے کی زندگی اب نہیں جیوں گی
اس ڈربے میں غلاموں کی مانند میں تیس ماہ تک
انڈے دیتی رہی’ کٹ کٹ کرتی رہی اور
ٹاٹ اور فضلے کے درمیاں اپنے پر نوچتی رہی

اے حویلی’ اب تجھے چھوڑ کے جانا ہو گا
اس سے پہلے کہ دیر ہو’ باہر نکلنا ہو گا
گول مٹول قیدی کتوں اور خنزیروں کی آہ و زاری سے
پٹ سن کی بوری سرمئی سی ہو گئی ہے
اور ان کی آہ و زاری گلابی سی

ایک پکار جی ہاں اک پکار’ چاند سے بھی آ رہی ہے
تمہارے پانی مالکن کے چوزے ڈبونے کو چوکس ہیں
اور کسان فرینکنسٹائن ندیا کنارے کپڑے سکھاتا
زور زور سے چھینکیں مار رہا ہے’ آچھو! آچھو!

سوچا تھا کہ کسی تاتاری مصرعے کی مدد سے
میرے ننھے دماغ میں کچھ الگ سا ڈالو گی
مگر تم بیوقوفوں کے پاس کسی چیز کا حل نہیں
ریشہ دار لوبیا’ لوبیا نما ریشہ
اٹھارہ ویلر کے آگے پیچھے ہونے کی آواز جیسا

ہو ہو!
دوزخی سی نا قابل اعتبار سڑک کے اس پار
میں کوشاں تھی کہ تمہاری معترف رہوں
پھر ایک بار اس سڑک پہ مجھے ایک مینڈک نظر آیا
جنگلی مینڈک!
جو اک پالکی سے کچلا گیا
تاتاری مینڈک’ پالکی!
لوس انجلس’ بوسٹن’ کلامازو کا مینڈک
مجھے اس سے حسد ہے
میرا خیال ہے میں وہی مینڈک بننا چاہتی ہوں
بوڑھے مرغوں کو کچلنے کے لیے
میرے رستے بڑے ہی کٹھن ہیں
اور یہ جو آج صبح میں نے ایک کیڑا پکڑا یہ ناکافی ہے
اے حویلی! میرے ننھے دماغ میں تیرا نقش اک درانتی سا ہے
رحم سے عاری’ خوشی سے ناآشنا
ایک ایسی قید جس کے دروازے میں ایک کیل ہے
جو نہ زنگ آلود ہوتی ہے’ نہ اعتبار کے لائق ہے
اور حویلی’ مجھے تجھ سے نفرت ہے!

میری گردن میں اک داستاں ہے
میرے پیٹ میں کچھ باتیں ہیں
میں گرہستی کے مطلق قانون کو ناپسند کرتی ہوں
اور اس باڑ کو’ انڈوں پر بیٹھنے کو اور اس ذلیل باد پیما کو بھی’
حویلی او فسطائی حویلی’ ہم ا̱س پار ہیں اب!

3
مجھے تجھ سے محبت ہے’ کہ محبت ہے مجھے مزار شب سے (چارلس بادلئیر)

اے حسن اور تنہائی کے غمکدہ

مجھے تجھ سے محبت ہے’ کہ محبت ہے مجھے مزار شب سے
اے خوبرو دوشیزہ’ تمہاری بن پنکھ پرواز مری محبت کو ج̱لا دیتی ہے
اور میری رات کا سنگھار معلوم ہوتی ہے
تم اس خلا کو سمیٹ لیتی ہو
جو نیلگوں وسعت کو میرے سینے سے دور رکھتا ہے
میں پیش قدمی کرتا ہوں’ رینگ کر شکار کی اور جاتا ہوں
جیسے حشرات الارض کا ٹولہ قبر میں رکھی میت کی اور جاتے
اور اے سنگ دل و ساکت انسان’ میں رکھوالی کرتا ہوں
سرد مہری سے سجے تمہارے جمال کی

4
Proposal

اگر مجھے تم اپنی خیال بستی میں اتنی ہے کثرت سے مدعو کرتے ہو
جیسے کہ میں اپنے خواب نگر میں تمہیں لاتی ہوں
تو پھر ہم تنہا نہیں ہیں-
بیچ کے ان خلاؤں کے آگے بےبس کہ جہاں راحت دل کی منزلیں ہیں
اس احساس سے اکتا گئے کہ ہم تمام نئی محبتوں کی تمثیل کرتے ہیں–
لیٹ جاتے ہیں’ فون کا ریسیور اٹھاتے ہیں اور
سرد آہ کی تمہید مغرور سی ڈائل ٹون کو سنتے ہیں–
تمہیں میں اپنے خیال خیمے میں تا دیر رکھتی ہوں
حتی کہ دماغ کے دریچے وا ہو جائیں’ اور اس کی کیفیات بدلنے لگیں–
ذاتی بدنظمیوں کے استحقاق کی بدولت–
توقع سے قدرے زیادہ شدت سے؛
حتی کہ توازن کھونے لگے
اور خالص دودھ چھلکنے لگے
اور خیال کی اوڑھنی کا ہر تار عام عام سا لگنے لگے

5
ہمیشہ کی طرح

کیا خبر کل صبح میری آنکھ کھلنے سے پہلے میں مر جاؤں
لفظ جو لازم ہیں ان کا ادا ہونا ابھی ممکن ہے
ہمیشہ کی طرح آج شب بھی تم میری دعا کا موضوع ہو
کھڑکی سے باہر’ گلی بہت روشن ہے
بنا چاندنی کے نظارہ’ میرے مشاہدے کا اظہاریہ
گر میں مر جاؤں صبح کو جاگنے سے پہلے

میں کچھ بے سکوں سو سکتی تھی’ کواڑ کے پیچھے گھپ اندھیرے میں
اس سے پہلے کہ تم جاگتے’ ہمیشہ کی طرح
میری دعاؤں میں

آج شب ان کی راہ میں پڑا تکیہ آب دافع ہے
اس کے گداز کپاس میں پڑا دل ابھی توڑا جانا ہے
گر صبح اٹھنے سے پہلے میں مر جاؤں

لفظ جو لازم ہیں سانسیں لے رہے ہیں’ ابھی زندہ ہیں
لفظ جو لازم ہیں ان کا ادا ہونا ابھی ممکن ہے
ہمیشہ کی طرح آج شب بھی تم میری دعاؤں کا موضوع ہو

اور میں بھوت بھی دے سکتی ہوں اور اس کے
جانے کو ممنوع ٹھہراتی ہوں’ یہ جانتے ہوئے کہ تمہاری باہیں کھلی ہیں
اگر صبح جاگنے سے پہلے میں مر جاؤں’ ایسا ممکن ہے
ہمیشہ کی طرح’ تم آج بھی میری دعا کا موضوع ہو

1 Comment

Comments are closed.